Nothing New About the New Year Expect and Wish You All the Best Dr. Rehan Ansari |
ہمارا ملک ہندوستان کثیرمذہبی ملک ہے۔ ہر مذہب کے چند تیوہار ہیں۔ ان تیوہاروں کو منانے کے کوئی اصول اگر متعین ہیں بھی تو انھیں جملہ مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت کبھی خاطر میں نہیں لاتی۔جب تک یہ سب اپنے اپنے معبودوں کے دربار میں کھڑے یا بیٹھے ہوتے ہیں تب تک ان کے دل اور نگاہ پر ایک طرح کی پابندی نظر آتی ہے۔ مگر جیسے ہی یہ اس آستاں سے اٹھ کر دنیائے رنگ و بو میں قدم رکھتے ہیں ان کی ساری شرافت اور انسانیت عریاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ان کے اندر سانس لینے والا اصلی وجود ظاہر ہوجاتا ہے۔پھر عیش میں یادِ خدا نہیں رہ جاتی! یہ سب ہوتا ہے بنامِ جشن و خوشی۔
کثیر مذہبی معاشرے کی ایک عجیب و غریب چاہت بھی کوئی اطمینان بخش منطقی نتیجہ پیش نہیں کرتی کہ ہم مذہبی تیوہاروں (عبادات و رسوم) کی ادائیگی میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی شرکت کو کیوں لازمی سمجھتے ہیں۔ اس شرکت کو مذہبی رواداری، وسیع المشربی، کشادہ ذہنیت جیسے خوبصورت اور دل پذیر ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔بلکہ سچ کہا جائے تو ان اصطلاحات کے ساتھ ایک دوسرے کو بہکایا جاتا ہے یا بہلایا جاتا ہے۔
جہاں تک تہذیبی یا معاشرتی تقریبات کا تعلق ہے تو انھیں ہمارے مشترکہ معاشرے میں ساتھ ساتھ انجام تک پہنچانے میں ہم بھی وسیع المشرب ہیں یا کہہ لیجیے روادار ہیں۔ مگر خالص مذہبی تقریبات یا مذہب سے متعلق رسوم میں پوری مشابہت کے ساتھ شرکت کرنا تو منافقت ہی کہی جانی چاہیے۔چنانچہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہولی دیوالی ہو، نوراتری اُتسو ہو یا گنیش اُتسو، رکھشا بندھن، کرسمس ہو یا ۳۱ دسمبر کی رات، ہم صرف اپنے نشے کے چکر میں تیوہار منانے والی ان قوموں سے تشبّہ اختیار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ’’رواداری‘‘ کا پاس رکھتے ہوئے یہ قومیں بھی ہماری عید کی سوئیوں اور شیرخرمے کی پیالیوں سے رسم و راہ نباہتے ہیں۔
مگر رواداری کے ایسے نباہ میں ہم نے مسلمان بھائیوں کو بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے پایا ہے۔ خصوصاً ممبئی (اور اس کے جیسے دوسرے شہروں) میں چونکہ رہائشی بلڈنگیں اب مخلوط معاشرہ کی دلیل بن چکی ہیں چنانچہ معاشرتی اور تہذیبی اثرات بھی بے پناہ خلط ملط ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ مذہبی تقریبات اور تیوہاروں کو نظرانداز کرکے غور کریں تو پورا سال ان کے تہذیبی و معاشرتی آئینہ میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون کس مذہب کا پیرو ہے۔نفسیاتی طور پر یہ شہری معاشرہ ان کے ذہنوں میں بھی مذہبی شناخت کا احساس دن بہ دن کم کرتا جاتا ہے۔ (یہاں مذہبی شناخت کو مذہبی تعصب سے مراد نہ لیں)۔اسی گمشدہ شناخت کا احساس لاشعوری طور پر اس دن سارے جذبات میں اُبال پیدا کردیتا ہے جب کوئی مذہبی تیوہار آن پڑتا ہے۔ اس وقت ہر مذہب کا ماننے والا پوری شدومد کے ساتھ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ کس مذہب کا پیرو اور وفادار ہے۔پھر اپنی یا پڑوسی بلڈنگ کے مکینوں کو یہ باور کرانے کے لیے اپنی حد سے گذرتے ہوئے تیوہار منانا پسند کرتا ہے۔ ہر تیوہار منانے والا خوشیوں (جذبات) کی افراط میں اپنے پڑوسیوں کو بھی شریک کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ پڑوسی بھی حقِ ہمسائیگی کی ادائیگی کے لیے ان کے ساتھ ہنسی خوشی شریک ہوتے ہیں۔ اصلاً یہ سب خود کو سمجھانے اور اس احساسِ محرومی کو رام کرنے کے لیے ہے کہ اس بھرے پرے شہر میں انھیں جاننے پہچاننے والے بھی کچھ لوگ رہتے ہیں۔ بعد از تقریب ’’آج مزا آگیا!‘‘ پر بات ختم ہو جاتی ہے۔سب مشترکہ طور پر اسی بات پر رضامند ملتے ہیں کہ ’’رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘
اسی مشترکہ کلچر کی دین ہے کہ کرسمس کو گھل مل کر منایا جاتا ہے۔کرسمس خاصا رنگیلا تیوہار سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رنگینی کے سبب اکثریت اسے مذہبی سے زیادہ معاشرتی تیوہار تصور کرتی ہے۔ عیسائی روایات کے مطابق یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش ہے۔ مگر ان کے یہاں بھی کوئی واثق روایت موجود نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یکے از پیغمبرانِ اسلام ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو آپ علیہ السلام کے یومِ پیدائش پر ہمیں بھی دعاؤں کا اہتمام کرنے کی سعادت حاصل کرنی چاہیے لیکن اسلام ان سب باتوں سے منع کرتا ہے اور تشبّہ کے خوف نیز حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں ہمیں اس سے بہرحال احتراز ہی کرنا چاہیے۔
کرسمس تو کسی طور بچتے بچاتے گذار دیا جاتا ہے لیکن دلوں میں جو رنگینیوں کا تصور اور نظر کو خیرہ کرنے والی تقریبات کی جو تصویر سمائی ہوتی ہے کرسمس کے دن اس کی پوری تسکین حاصل نہیں ہو تی اس لیے سماج کے شریر و چالاک طبقات نے ۳۱ دسمبر کو سال کا یوم الآخر منانے کے نام پر ہر طرح کی دھینگا مشتی اور ہر طرح کے نشے کو رواج دے دیا ہے۔ کسی کو رقص و سرود کی محفلوں میں مزہ ملتا ہے تو کسی کو ہنگامہ خیزی سے، کسی کو آتش بازی سے دلچسپی ہوتی ہے تو کسی کو چھیڑ چھاڑ سے قرار حاصل ہوتا ہے۔بعض نوجوان فراٹے بھرتی ہوئی چارچکہ یا دوچکہ گاڑیوں پر خالی سڑکوں پر بے ہنگم شور مچاتے مل جاتے ہیں تو کچھ عیش و مستی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ ٹیلی ویژن آجانے کے بعد بلاتفریقِ مذہب و ملت و معاشرہ ہر گھر میں چھوٹے پردے سے یہ سماجی ناسور رِستا ہوا نظر آتا ہے۔اس روز، بلکہ نصف شب کو ان سب باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ان سب باتوں کو دینِ فطرت تو کجا خود عیسائی مذہب سے کیا علاقہ ہو سکتا ہے۔ یہ سب تو کھلی ہوئی شیطنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ہماری آواز بے حد کمزور ہے اور شاید سماعتوں کو متاثر کیے بغیر ہی دم توڑ دے گی۔ کیونکہ ۳۱ دسمبر تو ہر قسم کا نشہ ساتھ لاتا ہے اور مخمور ماحول میں کوئی اخلاقیات پر لکچر پسند نہیں کرتا؛ خصوصاً آج کا مسلم نوجوان، اسے بھی ایک لت ہے اور اس لت کا تقاضہ ہے کہ ’’پینے کا بہانہ چاہیے!‘‘