عمل کی مذمّت مگر جذبے کی؟
ڈاکٹر ریحان انصاری
پاکستان کے اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کے پاکستانی طالبان کے ہاتھوں قتل کیے جانے کا جو رد عمل متوقع تھا ویسا ہی سامنے آیا. بین الاقوامی سطح پر مذمّت کی گئی. صحیح کیا گیا. اس سے قبل گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا. ان واقعات سے پہلے بھی جب اس قسم کا کوئی سانحہ ہوتا رہا ہے تب بھی یہی ہوتا آیا ہے کہ عالمی سطح پر اسکی مذمّت ہی کی جاتی ہے. صحیح کیا جاتا ہے. قتل انسانی کہیں بھی کیا جاےگا تو اسکی مذمّت کی جانی چاہیے. لیکن ایک نکتہ اس تناظر میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ قاتلوں کو یہ "مذمتی عمل" کرنے کے لئے جس جذبے نے اکسایا یا آمادہ کیا اس کا کیا کیا جائے؟
خبروں کے مطابق دونوں قتل قانون توہین رسالت کو ہلکانے کے مطالبے کو لیکر اٹھنے والوں کا ہوا ہے. اگر ہم یہاں اب یہ لکھیں کہ صحیح کیا گیا تو شاید سارے ہی لوگ ہم پر برہم ہو جائیں گے. ہم سے خفا ہو جائیں گے!
بس یہیں پر دنیا کی سوچ سے ہمیں اختلاف ہوتا ہے. ہم قتل کے عمل کی اس زاویے سے مذمّت کرتے ہیں کہ ایسا بے صبراپن آپ کو ہی کوئی فائدہ دیتا ہے نہ اس سے دنیا ہی کچھ آپ کے یا ہمارے جذبہ حب نبی صلی الله علیھ و سلّم کو سمجھ پاتی ہے.
ہمیں دنیا کے سامنے یہ کہتے ہوئے کوئی باک نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں کسی دوسرے مذہب والے کی بھی مقدس ہستی کے ناموس کی اگر دنیا میں کہیں بھی بے حرمتی کی جاتی ہے تو انجام بے حرمتی کرنے والوں کا ہمیشہ ایسا ہی یا اس سے کچھ ملتا جلتا ہی ہوتا ہے. اس کی مثالیں بہت زیادہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے. ہر جگہ آپ کو نظر آجا ئیں گی .پھر آپ صلی الله علیھ و سلّم کی ذات اقدس پر تو ہر مسلمان جان و دل سے نثار رہتا ہے. جہاں تک ناموس رسالت کو مجروح کرنے والے کی سزا کا تعلّق ہے تو یہ کوئی نیا مسئلہ ہے نہ اس جانب کوئی اور طرح کے احکام جاری ہو سکتے ہیں. یہ ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند بالکل صاف ہے. شاید اسی لئے دنیا میں اور خصو صا پاکستان میں ایسے واقعات پیش آ ہی جاتے ہیں.
یہاں ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ جب دنیا یہ بات اچّھی طرح جانتی ہے کہ مسلمان ناموس رسالت کے لئے جان لیتا بھی ہے اور دیتا بھی ہے تو اس معاملے کو دنیا چھیڑتی ہی کیوں ہے؟ کیا اس معاملے کے بغیر دنیا کی ترقی رک جاتی ہے؟ کیا ایسا قتل کرنے والے دنیا کی ترقی کا روڑا بنے رہتے ہیں؟ ہمارے خیال میں بجلی کے جس تار پر کوئی انسولیشن یعنی حفاظتی تہہ نہیں اور کبھی نہیں چڑھائی جاسکتی اس کو چھونے سے بھی گریز کرنے میں سب کی بھلائی ہوتی ہے. ناموس رسالت صلی الله علیہ و سلّم پر مر مٹنے کا جزبہ بھی ایسا ہی بجلی کا تار ہے جس میں رو ہمیشہ دوڑتی رہتی ہے لیکن اس پر کوئی انسولیشن نہیں چڑھاتا. یہ ہمیشہ ظاہر رہنے والا جزبہ ہے. دنیا کو چاہیے کہ اس جذبے کا بھی احترام کرے. یہ بھی انسانی وصف ہے. یہ جذبہ نہ تودنیا کی ترقی کا روڑا بنتا ہے نہ کسی دوسرے کو تکلیف پہنچانے کے لئے جاگتا ہے. ایک اصول تو سبھی جانتے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہوتا ہے. دنیا کیوں بار بار اس جانب احتیاط نہیں برتتی ہماری سمجھ سے باہر ہے.
2 comments:
آپ کا دریچہ کے مضمون کا مطالعہ کیا بجلی کے تار کی مثال بہت اچھی ہے لیکن آج بھی یہود ونصارہ کی پشت پناہی اور ان کا عطا کیا ہوا ہینڈ گلوز دستانے پہن کر اس تار کو چھونے میں ان کو کسی بات کا خوف نہےں رہتا ہے۔ہاں مگر جب اللہ کی مار پڑتی ہے تو گستاخ رسول کو آگ اپنی آعوش میں لے لیتی ہے جب سب کارٹون گری نکل جاتی ہے آپ نے تو چلھے گستاخ رسولوں کو ایک طرح سے تاکیدً کچھ کہے کر اپنا فض ادا کردیا اللہ آپ کے اس جذبے کو قبول فرمائے آمین
آج یکایک ڈاکٹر صاحب مرحوم کی یاد آئے چلی جا رہی ہے. اللہ رب العزت ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی ترین مقام عطا فرمائے. آمین
Post a Comment