Get Rid of Mosquito Menace |
ان مچھروں میں بھی برادری پائی جاتی ہے۔ اور ہر برادری الگ الگ امراض پھیلاتی ہے۔ ان میں چکن گنیا ایک نیا اضافہ ہے جو ۱۹۵۲ء میں ہوا ہے۔ آئیے ہم مچھروں کی برادری کے تعلق سے پہلے تھوڑی گفتگو کر لیں اس کے بعد چند ایسے امور پر گفتگو کریں گے جو اگر بروئے کار لائے گئے تو بہت ممکن ہے کہ مچھروں کا آزار قابو میں کیا جا سکتا ہے۔
مچھر دراصل اُڑنے والے کیڑوں کی وہ اہم ترین جماعت ہے جو انسانی صحت پر نامعلوم زمانے سے اثر انداز ہے۔ ماہرینِ حیوانات کے مطابق کم و بیش دو ہزار قسم کے مچھر پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں؛ بالکل انسانی اقوام کی طرح۔ ہمارے ملک میں چار قسمیں بیماریوں سے زیادہ متعلق ہیں۔ انو فیلیس، کیولیکس، ایڈیس اور مینسونیا۔
مچھروں کا جسم تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سر، سینہ اور دھڑ۔ ان کے پر چھوٹے چھوٹے جھلی نما حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ دھڑ کا ہی ایک حصہ ہیں۔ مچھر بہت دور تک پرواز نہیں کر سکتے۔
سر کے حصے میں منہ بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ انہی میں سونڈ بھی ہے جس کی مدد سے وہ پھلوں اور پتوں کا رس چوس کر اپنی گذر بسر کرتے ہیں۔ آپ کو شاید یہ جان کر عجیب سا محسوس ہوگا کہ مچھر کی اصل غذا پتوں اور پھلوں کا رس ہے یا نرم ڈنٹھلوں کا پانی۔ پھر یہ ہمارا خون کیوں چوستے ہیں؟ براہِ کرم اس سوال کو صحیح طور پر یوں پوچھیے کہ پھر یہ ہمارا خون کیوں ’چوستی‘ ہیں؟ جی ہاں خون چوسنا صرف مادہ مچھر کا عمل ہے۔ یہ اس کی ایک فطری ضرورت کا تقاضہ ہے۔ یعنی افزائشِ نسل کے لیے اس کے انڈوں کاحفاظتی خول صرف حیوانی پروٹین سے ہی بن سکتا ہے چنانچہ وہ اس پروٹین کے حصول کے لیے حیوانات (mammals)کو ڈنک مارتی اور خون حاصل کرتی ہے۔مادہ مچھر انڈے پانی کی سطح پر دیتی ہے اور اس سطح پر یہ انڈے تیرتے ہیں یا آبی نباتات کے پتوں سے چپکے رہتے ہیں۔یہاں بھی یہ بات واضح کر دیں کہ ہم سب یہی سمجھتے ہیں کہ مچھر صرف گندے پانی میں رہتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ٹھہرا ہوا صاف پانی ان کے لیے زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تعمیراتی کاموں کی جگہیں، ٹیریس پر موجود پانی کی ٹنکیاں اور باغات کے علاوہ رہائشی و آرائشی کمروں کے گملے ان کی افزائش کے بہترین علاقے ہیں۔ انڈوں سے بالغ مچھر کی تشکیل میں اگر حالات مناسب رہے تو محض سات سے دس دن لگتے ہیں۔ ایک مچھر طبعی طور پر صرف دو ہفتے سے ایک ماہ تک زندہ رہتا ہے اور نر مچھر کی زندگی عموماً کم ہوتی ہے۔ زیادہ گرمی اور زیادہ سردی کے موسم ان کی افزائش کے لیے قطعی غیر مناسب ہیں۔
مچھروں کی چند قسمیں
٭انوفیلیس Anopheles قسم کے مچھر دراصل ملیریا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ ان مچھروں کو بیٹھے ہوئے دیکھیں تو ان کا جسم اپنے شکار کی جلد کی سطح کے متوازی نظر آتا ہے۔٭کیولیکس Culexقسم کے مچھر کے ڈنک سے سوزش اور تکلیف ہوتی ہے۔ ان سے فائلیریا (فیل پا، ہاتھی پاؤں) کا مرض ہوتا ہے اور بسا اوقات سرسام یا دماغی بخار بھی ان کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ ان مچھروں کے بیٹھنے کی پوزیشن سطح سے ایک زاویہ پر ہوتی ہے اور پیٹھ پر کوبڑ ظاہر ہوتا ہے۔
٭ایڈیسAedis نامی مچھر برسات کے موسم میں زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے جسم پر دھاریاں پائی جاتی ہیں اسی لیے انھیں Tiger mosquitoesبھی کہتے ہیں۔ ایڈیس کو حمئ صفراوی Yellow fever کے وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دورِ حاضر میں چکن گنیا اور ڈینگو وائرس کے پھیلاؤ کی ذمہ داری بھی اسی کے سر ہے۔
٭ مینسونیا Mansonia قسم کا مچھر عموماً بڑا، سیاہ اور اس کا جسم دھبے دار ہوتا ہے۔یہ چھوٹے گڑھوں اور تالابوں میں نیز حوض میں پلتے ہیں۔ ان سے عموماً فائلیریا کا مرض پھیلتا ہے۔
چند حقائق
مچھر زیادہ دور تک پرواز کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ زیادہ سے زیادہ سو میٹر تک یہ اڑ سکتے ہیں البتہ ہوا کے دوش پر سوار ہو کر یعنی خود ہوا زور کی چلے تو یہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔مچھروں کی بڑی تعداد امراض کے پھیلاؤ کی ذمہ دار ہے ۔ ان امراض میں ملیریا، فائلیریا ، ڈینگو اور اب چکن گنیا کافی معروف ہیں۔
ملیریا ایک طفیلیہ بنام پلازموڈیم Plasmodium سے پھیلتا ہے جو انوفیلیس مچھر کے کاٹنے کے بعد اس کے لعاب کے ذریعہ خون میں داخل ہو جاتا ہے۔
فائلیریا ایک دوسرا طفیلی مرض ہے جو دھاگے نما گول دُودوں (کیچوؤں) سے لاحق ہوتا ہے اور اس کا عام مظہر ہم سب فیل پا (یا) ہاتھی پاؤں کی بیماری کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ان دُودوں کو W. bancroftiکہتے ہیں۔ اس کے لاروا بھی مچھروں کے لعاب کے ساتھ داخلِ جسم ہوتے ہیں۔
چکن گنیا اس دور میں ایک نیا نام سامنے آیا ہے جو ایڈیس ایجپٹائی مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ اس مرض کی پہلی تشخیص ۱۹۵۲ء میں ہوئی تھی اس لیے اس کا تفصیلی بیان ہنوز تشنہ ہے۔ ہم نے بڑی کوشش کی تو یہ بات سامنے آئی کہ اس مرض کا طبی نام تک تجویز نہیں کیا گیا ہے چہ جائیکہ کوئی تفصیلی طبی مطالعہ پایا جائے؟ اس مرض میں مریض کو جو تکالیف ہوا کرتی ہیں محض ان کی تفصیل موجود ہے جیسے شدید بخار، جوڑوں کا ناقابلِ برداشت درد، کچھ جلدی علامتیں وغیرہ۔ لیکن مرض جسم میں کیسے ترقی پاتا ہے اس کے بیان میں صرف یہی درج ہے کہ ایڈیس مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اور ایک الفا وائرس (جس کا نام بھی چکن گنیا ہی لکھا گیا ہے!) اس کا سبب ہے۔ اور بس۔ آگے کوئی ایسی تفصیل نہیں ملتی جسے طبی زبان میں ’’پیتھوفزیالوجی‘‘ Pathophysiologyکہا جاتا ہے۔
ڈینگو ایک شدید بخار والا مرض ہے۔ اس کا پھیلاؤ ایک وائرس بنام ڈینگو Dengueیا Arbovirus Group B سے ہوتا ہے۔اس میں شدید بخار ہوتا ہے اور ہڈیوں میں بھی درد محسوس ہوتا ہے، ہلکا لرزہ، شدید سر درد اور بعض اوقات چکتّے ابھر آتے ہیں۔کچھ صورتوں میں یہ بخار مہلک بھی ہو سکتا ہے۔
درج بالا سطور میں بیشتر عنوانات ایسے ہیں کہ ان پر جدا جدا طویل مضامین تحریر کیے جا سکتے ہیں۔لیکن ضرورتِ وقت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے یہاں ان کا سرسری تذکرہ کیا ہے تاکہ ایک اجمالی تعارف حاصل ہوجائے۔ مقصدِ تحریر یہ ہے کہ یہ امراض مچھروں کی وجہ سے ہی پھیلتے ہیں اور کسی مریض سے دوسرے فرد میں منتقل ہونے کے لیے مچھر درمیانی کڑی ہیں۔ اس لیے اگر مچھروں سے تحفظ اور منظم انداز میں ان کی افزائش کے علاقوں کو ختم کیا جائے تو ہم ملیریا، فائلیریا اور ڈینگو جیسے خطرناک امراض کا سدِّ باب آسانی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔
قابو! قابو؟
ہمارے یہاں مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھردانی، اسپرے، مختلف دوسرے طریقے تو موجود ہیں مگر ان میں تقریباً نوے فیصدی سے زیادہ اقدامات ایسے ہیں کہ جو بالغ مچھروں سے مقابلہ کرنے اور ان کے ڈنک سے بچنے کے ہیں۔ لیکن ان کی افزائش کے علاقوں اور ان کے انڈوں اور بچوں کو نیست ونابود کرنے والے اقدامات یا تو ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو اتنے ناکافی اور غیر منظم کہ ان کا فائدہ ہم اٹھا ہی نہیں سکتے! اور یہی دراصل ناکامی کا عنوان ہے۔ جب تک مچھروں کی پیدائش کو ختم نہیں کیا جاتا تب تک ہم مچھروں سے پھیلنے والے امراض سے نجات نہیں حاصل کر سکتے۔ اختصار کے ساتھ ان اقدامات کو درج کیا جاتا ہے جو مچھروں کی افزائش پر کنٹرول سے معنون ہیں۔Our weapons against mosquitoes |
٭ کھلی جگہوں پرپانی کو جمع ہونے نہ دیا جائے۔ چھوٹے گڑھوں وغیرہ کو بھی بھرنے سے بچایا جائے۔ ٭ گملوں وغیرہ میں مٹی کے اوپر ریت ڈالی جائے تاکہ پانی اوپر نہ رہے۔ ٭ وبائی دنوں میں حوض وغیرہ میں آبی نباتات نہ ڈالے جائیں۔ ٭ خالی ڈبے اور کنستر وغیرہ کو ایسی جگہ نہ پھینکیں کہ ان میں پانی جمع ہو کر پڑا رہے۔ ٭ جمع شدہ پانی کا نکالنا اگر ممکن نہیں ہو تو ایسے پانیوں میں پیٹرولیم یا تیل ڈال دیا جائے ۔ یہ پیٹرولیم مچھر کے انڈوں سے نکلے ہوئے لاروا کے لیے ہوا کا حصول مشکل بنا دیتے ہیں اور وہ ختم ہوجاتے ہیں۔ ٭ مخصوص دواؤں کا چھڑکاؤ بھی بلدیاتی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن ہم محسوس کرتے ہیں کہ عوامی نمائندے ہر بلدیاتی اقدام اپنی جانب سے شرائط کے ساتھ کرواتے ہیں تاکہ ان کاموں کی آڑ میں ان کا ووٹ بینک اور بینک بیلنس بھی مضبوط ہو سکے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خلوص عنقا ہونے کی وجہ سے اقدامات بروقت نہیں ہوتے اور عوام مسلسل مچھروں کے عذاب کا شکار ہیں۔ اس افسوسناک صورتحال کا ذمہ دار ہم اپنے آپ کو بھی مانتے ہیں اور اپنے معاشرے کو بھی۔
کیا مچھروں کا سدّ باب ممکن ہے
بات یہاں تک آکر پوری بھی ہو جاتی ہے لیکن یقینا مچھروں کا سدّ باب محض اتنے اقدامات سے نہیں ہو پاتا کیونکہ یہ باتیں کتابی اور اصولی ہیں جو کہنے کے لیے تو آسان ہیں لیکن عوام میں نہ ہر کسی کی ذہنی سطح ایک جیسی ہے اور نہ سب کو اتنا شعور ہوتا ہے کہ وہ ایسی باتوں پر صبح تا شام عمل کر سکیں۔ پھر گنجان اور مصروف شہری زندگی نے تو رہائشی معاملات میں ایسے ایسے مسائل پیدا کر رکھے ہیں کہ اس بارے میں عمل تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔Mosquito Breeding Places |
’’اگر میں وزیرِ صحتِ عامہ ہوتا...‘‘
پھر آخر کیا حل ہے اس مسئلے کا؟ حل بہت واضح ہے۔ جس کاجواب مجھے اس سوال سے ملا جو اسکول کی تحتانی جماعتوں میں اکثر مضمون نویسی کے لیے دیا جاتا ہے کہ ’’اگر میں وزیرِ اعظم ہوتا...‘‘ میں نے اسے یوں سوچا کہ ’’اگر میں وزیرِ صحتِ عامہ ہوتا...‘‘ اور پھر کڑیاں جوڑتا رہا:٭موجودہ دور میں پورے سماج میں مچھروں سے بچاؤ (بلکہ بھگاؤ!) کے لیے انفرادی سطح پر جو خرچ ہو رہا ہے وہ کم و بیش ایک روپیہ یومیہ ہے۔ یعنی مچھر بھگانے کا جو بھی سامان دستیاب ہے وہ فی نفر ایک روپیہ فی یوم ہوتا ہے۔ گویا قومی سرمایہ کا تقریباً ایک اَرب سے زیادہ روپیہ ایک دن میں مچھروں کو بھگانے والی کمپنیاں کما لیتی ہیں۔ یعنی سالانہ تین سو پینسٹھ اَرب روپیہ!! قارئین کو اختیار ہے کہ وہ اس حساب میں جو بھی کمی بیشی کر نا چاہیں کرسکتے ہیں۔
٭ یہ کمپنیاں بدلے میں جو بھی ٹیکس حکومت کو ادا کرتی ہوں گی اسے قومی آمدنی میں گنا جا رہا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے!
٭ کمپنیاں عوام کو بدلے میں کیا کیا دے رہی ہیں؟ سارے سامان فضائی آلودگی بڑھانے والے ہیں۔ ان کے نتیجے میں عوام کی کثیر تعداد تنفسی امراض کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ یہ دھوئیں یا اسپرے، ٹکیہ، لوشن، کریم وغیرہ بیشتر تنفسی اور جلدی امراض کا سبب بنتی جارہی ہیں۔
٭ قابو کے جو بھی دستیاب اقدامات ہیں ان کا بنیادی معاملہ دواؤں کو بخاری(Vapour) شکل میں پھیلانے کی جانب ہی اشارہ کرتا ہے۔ اس لیے ہر تحقیق کا یہ بنیادی نکتہ تصور کیا جا سکتا ہے۔
٭ ہم نے اپنی پوری عمر میں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کبھی دواؤں کے اسپرے کا منظر دیکھا ہی نہیں جبکہ ہیلی کاپٹر دیکھتے ہوئے یاد نہیں کتنا عرصہ گذر چکا ہے۔ البتہ دوسرے ممالک میں بنی ہوئی ڈاکیومینٹری فلموں میں یہی منظر کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔
٭ مچھروں کی افزائش اور پھیلاؤ ہمارے ملک کا اتنا سنگین مسئلہ ہونے کے باوجود ہم اپنے ملک میں ماہرینِ علم الحیوانیات کی اس جماعت کی کوئی خدمت نہیں لیتے ہیں جو ماہرینِ حشرات یا Entomologistsکہلاتے ہیں؛ نہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں۔ یہ کیڑے مکوڑوں کی زندگی اور ان کے مدارجِ حیات کی پوری تفصیل جانتے ہیں اور حکومت کو بتلا سکتے ہیں کہ ایسے کون سے اقدامات آسانی سے ممکن ہیں جو مچھروں اور ان جیسے نقصاندہ حشرات کی پیدائش پر قابو دلا سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے ماہر کیمیاداں حضرات کی ٹیم بنائی جاسکتی ہے اور انھیں اس پروجیکٹ کی ترتیب پا مامور کیا جا سکتا ہے کہ وہ نئی دواؤں یا ذرائع کی کھوج کریں جو مچھروں کے ایسے دورِ حیات پر کارگر ثابت ہوں جہاں سے ان کی افزائش تھم جائے اور وہ ہلاک ہو جائیں۔ اس ٹیم کو تحقیقات کے لیے ہر ممکن سہولت لیکن محدود مگر کافی وقت دیا جائے۔
٭ اس نکتے پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ مچھر گھومتے تو ہوا میں ہیں مگر پیدا پانی میں ہوتے ہیں؛ اس لیے کیا ایسی دوائیں تیار نہیں کی جا سکتیں کہ جمع شدہ پانے میں ان کو چھوڑ دیا جائے اور وہ کافی عرصے تک اس میں مچھروں کی پیدائش کا ماحول ناسازگار بنائے رکھیں نیز عوام کو ان سے کوئی نقصان نہ پہنچے؟
٭ ہم عوام پر یہ راحت پہنچانے کے عوض کوئی ٹیکس بھی عائد کریں تو روزانہ کے اخراجات کے مقابلے میں وہ اتنا معمولی ہوگا کہ عوام بخوشی ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
٭ اے کاش کسی دل میں اتر جائے مری بات!
Mosquito Life Cycle |
No comments:
Post a Comment