Bana Hai TADA Tajammul Husain Khan ke liye |
یہ اور بات کہ پھنس جائے کوئی رام لکھن
بنا ہے ٹاڈا تجمل حسین خاں کے لیے
جب کل کے اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ راکیش ماریہ کی سربراہی میں اے ٹی ایس نے سی بی آئی کو ای میل کے ذریعہ ممبئی اور دہلی سمیت ملک کے دس اہم مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کی دھمکی دینے والے شخص کو گرفتار کر لیا، بڑی سرعت کے ساتھ، محض چھ گھنٹوں میں؛ تو یک گونہ اطمینان ہوا۔ مگر... جب خبرکی تفصیل پڑھی تو قدرے تعجب ہوا۔ اس شخص کا نام ہے تشار ساونت Tushar Sawant۔ ۲۷ سال کی عمر۔ بی ایس سی (آئی ٹی) سند یافتہ۔ وِدّیا وِہار (ممبئی) کے علاقے کا رہنے والا۔Rakesh Maria: ATS (Mumbai) Chief |
وائے حیرت۔ تشار خود پریشان تھا۔ پریشانی کی اذیت جھیل رہا تھا۔ مگر اسے اتنا ضرور ہوش تھا کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو من حیث القوم کیسے پریشان کیا جاسکتا ہے!۔ اسے لشکر (لشکر طیبہ) جیسی جنگجو یا دہشت گرد تنظیم کی بھی معلومات تھی۔ اسی لیے تو اس نے اپنے ای میل کے لیے اس کا نام حوالہ بنایا تھا۔ ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ تشار جیسے لوگوں کا مائنڈ سیٹ کون سا طبقہ اور کون سا میڈیا بناتا ہے۔ جبکہ سابق اے ٹی ایس سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے بڑی محنت کے ساتھ سب کچھ صاف کر دیاتھا کہ ملک کے اندر کے دشمن باہر کے دشمنوں سے کتنے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان کی جانب سے چشم پوشی کرنے کے نتیجہ میں ملک کو اور اس سے بڑھ کر یہاں کی محب وطن مسلم قوم کو کون کون سے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ اس کے باوجود ابھی تک ان قوم دشمن طاقتوں کے ساتھ پورے انصاف کے ساتھ نمٹا نہیں جارہا ہے۔
ہمیں یاد آتا ہے کہ دھماکہ خیز ایام میں صدر جمہوریہ عبدالکلام کو بھی الہاس نگر سے تشار جیسے ہی ایک شخص نے متعدد ای میل بھیج کر دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ چند دنوں کے بعد خود ہی ملکِ عدم کو سدھار گیا۔ اس کے علاوہ بھی اکّا دکّا کیس سامنے آتے رہے مگر ان سب کو پولیس کی جانب سے کسی سخت کارروائی کے بغیر محض شرارت خیزی سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔ مگر ہمیں درج بالا پیروڈی کی یاد آتی رہی کہ بالفرض یہ افراد مسلمان ناموں والے ہوتے تو کیا پولیس یا اے ٹی ایس محکمہ اسی طرح کا برتاؤ کرتا؟۔ ہم نے تو دیکھا ہے کہ ملزم تو ملزم اس کے بھائی بہن یا رشتہ داروں حتیٰ کہ دوستوں اور ساتھیوں تک کو پولیس طرح طرح سے ہراساں کرتی اور ان کے رات اور دن کا چین لوٹ لیتی ہے۔ مگر دوسری جانب سادھوی پرگیہ ہو یا کرنل پروہت یا دیانند پانڈے وغیرہ ان کے کسی بھی متعلق فرد کو ایسی اذیتوں سے کبھی نہیں گذرنا پڑا ہے.
2 comments:
bilkul saheeh farmaya aap ne
I am in full agreement with the article. It is a powerful article which can be supported by others
Post a Comment