The Most Painful Blisters Herpes Zoster : Shingles Dr. Rehan Ansari |
یہ مرض جدید طب میں ہرپِس ژوسٹر (Herpes Zoster) اور قدیم طب میں نملہ، عام زبان میں ناگن اور دنیا کے الگ الگ خطوں میں جدا جدا تہذیبوں میں بھی اسے الگ الگ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ طرح طرح کے مذہبی عقائد کے ساتھ بھی اسے جوڑ دیا گیا ہے۔ جدا جدا ناموں کے ساتھ ہی متعدد توہمات اور خوفناک داستانیں بھی اس سے منسوب ہیں جو صرف بکواس ہیں اور کچھ نہیں۔
Herpes Zoster usually affects One side of the body, Right or Left |
تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ایک قسم کے وائرس وریسیلا ژوسٹر (Varicella zoster) کی وجہ سے ہوتا ہے اور عصبی ریشوں کا مرض ہے۔ اس کا قدیم طبی نام نملہ [نَمل (عربی) = چیونٹی] اس وجہ سے رکھا گیا تھا کہ اس کا درد چیونٹی کے کاٹنے کے بعد ہونے والے شدید درد سے بہت مشابہت رکھتا ہے نیز یہ درد ریڑھ کی ہڈی سے رینگتا ہوا آگے کی جانب آتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی حالت سانپ کے رینگنے کی ہوتی ہے اس لیے علاقائی زبان میں اسے ناگن کہا جاتا ہے۔ عام انگریزی میں اسے Shinglesکہتے ہیں۔
تعدیہ Infection
یہ انفیکشن عام طور پر جلد تک ہی محدود ہوتا ہے۔مگر کبھی کبھار آنکھوں، کان، منہ اور دوسرے اندرونی اعضاء میں بھی پایا جا سکتا ہے۔یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ نملہ در اصل ان لوگوں کو ہوا کرتا ہے جن کو بچپن میں ’’چھوٹی چیچک‘‘ (چکن پاکس) نکل چکی ہوتی ہے، اس مفروضہ کی بنیاد یہ ہے کہ دونوں ہی امراض کا سبب وریسیلا ژوسٹر وائرس ہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چکن پاکس سے صحتیاب ہونے کے بعد بھی کچھ مریضوں میں یہ وائرس تباہ نہیں ہوتے بلکہ محفوظ پناہ گاہ پا کر اعصاب کی جڑ (Dorsal root ganglion)میں بے عمل و بے اثر پڑے رہتے ہیں۔ برسوں بلکہ دہائیوں تک یہ اسی طرح رہ جاتے ہیں۔ پھر جیسے ہی بدن کی قوتِ مدافعت کی کمزوری محسوس کرتے ہیں ویسے ہی حملہ آور ہو کر تکلیف پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس بچوں میں چکن پاکس تو پیدا کرتے ہیں لیکن نملہ کا سبب نہیں بنتے۔
It can affect the skin of Face and other Parts of the body |
جب یہ حملہ کرتے ہیں تو ریڑھ کی جانب سے جس طرف کے اعصاب کے ریشوں کو متاثر کرتے ہیں ان میں تیزی کے ساتھ سرایت کرتے ہیں اور التہاب (inflammation) پیدا کرتے ہیں۔ ایسا کسی ایک ہی عصبی شاخ اور حصے میں ہوتا ہے۔ یہی التہابی حالت عصبی ریشوں میں بے انتہا درد اور اذیت کا سبب بنتی ہے پھر وہاں دانے اور آبلے ظاہر ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایک ہی جانب یعنی بدن کے ایک ہی نصف کے سینہ، پیٹھ، چہرہ، گردن، کمر، کاندھے، بازو، کولہے اور ران کے حصے زیادہ تر متاثر ہوتے ہیں۔
نملہ کسی مریض سے ایسے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتا جسے کبھی چکن پاکس نہیں ہوا ہو۔ ہاں مگر، اس کا وائرس دوسرے شخص پر صرف اس وقت منتقل ہو سکتا ہے جب وہ دانوں یا آبلوں کے راست تعلق میں آجائے۔ پھر یہ اس شخص کی قوتِ مدافعت پر منحصر ہوگا کہ اس میں مرض پیدا ہوتا ہے یا نہیں۔ کھرنڈ پیدا ہونے کے بعد اس کا بھی امکان ختم ہو جاتا ہے۔
علامات و نشانیاں Signs and Symptoms
’’درد، درد اور درد‘‘ ہی سب سے اہم علامت ہے۔ البتہ ابتدا میں مریض سر درد، ہلکا بخار، بدن درد اور تکان و کمزوری جیسی عمومی علامات کے ساتھ آتا ہے جو جلد ہی رخصت ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دانے اور سرخی ظاہر ہونے لگتی ہے جو رفتہ رفتہ چھوٹے بڑے آبلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ آبلوں کے درمیان میں جلد طبعی ہوتی ہے۔ ان دانوں کا علاقہ کسی بھی ایک ہی عصبی حصے کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ پیچھے ریڑھ کی جانب سے آگے بڑھتا ہوا سامنے جسم کے درمیانی حصے تک ہی محدود ہوتا ہے۔ جسم کے دوسرے نصف میں نہیں دوڑتا۔ اگر دوسرے نصف میں یہ مرض موجود ملا، جو شاذ و نادر ہی ممکن ہے تو وہ اسی جگہ نہیں بلکہ جسم کے دوسرے کسی حصہ میں ملے گا۔
آبلوں کے اندر عصبی درد کے سارے احساسات شدید طور پر محسوس کیے جاتے ہیں جیسے جلن، درد، چبھن، سنسناہٹ، سُن ہو جانا، دھمک، چیونٹی سا رینگنا، جھنجھنانا، تڑپنا، زود حساسیت وغیرہ۔ اکثر ان دردوں کا امتزاج ملتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ مریض کو درد پہلے محسوس ہوتا ہے اور دانے یا آبلے بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں تشخیص و علاج کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
علاج شروع ہونے پر درد میں کمی ہونے لگتی ہے اور آبلے بھی پھوٹ کر بہہ نکلتے ہیں۔ پھر ان پر کھرنڈ کی ایک تہہ جم جاتی ہے جو بعد میں پپڑی بن کر چھوٹ جاتی ہے اور دانے مندمل ہو جاتے ہیں۔ ان دانوں کے جھڑ جانے پر جلد کی رنگت کی مناسبت سے سیاہ یا سفید داغ پڑ جاتے ہیں۔جو کچھ روز بعد اکثر صاف ہو جاتے ہیں۔ ان سب مراحل میں دو سے تین ہفتے بیت جاتے ہیں۔
علاج Treatment
نملہ کے آبلے بے حد دردناک ہوتے ہیں اس لیے مریض کو بہرصورت آرام کرنے کو کہا جاتا ہے اور اس کا کوئی شافی و کاری علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ درد کو کم کرنے کے سبھی جتن روا ہیں۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ۔ البتہ جتنی جلدی ہو سکے علاج شروع کرنے سے تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ درد کو کم کرنے کے لیے مقامی طور پر مسکن دوائیں لگائی جاتی ہیں اور دانوں یا آبلوں میں پیپ وغیرہ پڑنے سے حفاظت کے اقدام کیے جاتے ہیں۔
چند اینٹی وائرس Antivirus دوائیں بازار میں آئی ہیں جو وائرس کی نمو کو روکنے کے لیے ہیں مگر یہ مہنگی بھی بہت ہیں اور راحت بھی جلدی نہیں دیتیں بلکہ وہی تین ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس طرح علاج کی صورت میں کوئی خاطر خواہ اطمینان نہیں ملتا۔
مرض تین سے پانچ ہفتوں میں رخصت ہو جاتا ہے اور کوئی بھی شدید پیچیدگی پیدا نہیں کرتا.
1 comment:
Aabla-paa koi is dasht mein aaya hoga,
Warna aandhi mein diya kis ne jalaya hoga.
Post a Comment