Hisson wali Qurbani: What's it Dr. Rehan Ansari |
ان اشتہارات کے مشمولات بھی بڑے متنوع ہوا کرتے ہیں۔ ہمیں ان سے کچھ کلام نہیں۔ یہ کام ابتدا میں چند مدرسوں نے شروع کیا تھا۔ بعد میں (پتہ نہیں کن دینی امور کے تحت) کچھ مساجد کی جانب سے بھی یہ اعلانات اور بینر سامنے آئے۔ پھر ہوا یہ کہ علاقائی مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے بھی اسے فائدہ بخش سمجھ کر اس میدان میں کود پڑیں۔ اب سبھی کھال کھینچنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں عرضِ مدّعا یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے ’جانور بازار‘ میں کوئی بھی ریوڑ کا ریوڑ یکساں قیمت پر فروخت کرنے کا رواج نہیں پایا جاتا۔ نہ اس بابت کبھی سننے کو ملتا ہے۔ اس لیے جو لوگ حصوں والی قربانی میں یکساں ’فی حصہ کچھ سو یا ہزار روپے‘ کا اعلان کرتے ہیں وہ کن بنیادوں پر ایسا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی صراحت نہیں کی جاتی۔ ہر جانور کا نرخ اگر الگ الگ ہوتا ہے تو ہر حصہ کا نرخ بھی اسی کے حساب سے تبدیل ہوگا۔ جو لوگ یکساں قیمت فی حصہ کی ادا کرتے ہیں تو کیا شرعی طور پر وہ اپنی ’ادائیگئ واجب‘ سے سرفراز ہو جاتے ہیں؟
ہم ان سینٹروں پر بھی مشاہدہ کے لیے گئے جہاں حصوں والی قربانی دی جاتی ہے۔ وہاں خریدے گئے جانوروں کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ ناتواں (کبھی کبھی لاغر) اور بھدے نظر آنے والے جانوروں کی بہتات ہوا کرتی ہے۔ حصہ لینے والے اصحاب و خواتین کیا اس بات کے لیے کہ انھیں اچھا، خوبصورت، فربہ جانور دستیاب ہو سکے؛ ایک حصہ کے لیے زیادہ روپے نہیں دینا چاہیں گے؟ مگر صاحب... قربانی کا ذمہ لینے والے لوگ تو جس رقم کا فی حصہ اعلان کر چکے ہیں اس میں اس سے زیادہ بھلا جانور اور کون سا مل سکے گا؟... ہمارا خیال (مشورہ) تو ایسا ہے کہ جانور فراہم کرنے والے سے ریوڑ کا نظم کروا کر پیشگی (بازار کی مانند) باندھ دیا جائے اور سبھی کی علیحدہ علیحدہ قیمتیں لکھ دی جائیں۔ پھر جو جس قیمت والے جانور میں حصہ لینا چاہے اس کی قیمت اس سے (مع قصاب کے معاوضہ کے) لے لی جائے۔ رہی بات اشتہار کے مضمون کی تو اس میں بھی لکھا جا سکتا ہے کہ’’ اپنی پسند کے جانور میں حصہ لیں اور اسی کے مطابق فی حصہ ادائیگی کریں‘‘۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک مشکل کام ضرور ہے۔ یعنی ایک ہی جانور میں حصہ داروں کی تلاش؛ خصوصاً مہنگے جانور میں؛ محنت طلب ہے۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یکساں قیمت فی حصہ والی قربانی میں تو کسی نہ کسی درجہ میں بددیانتی کے در آنے کا احتمال رہے گا۔
یہ سلسلہ اصل میں کافی دراز اور طویل ہوتا چلا ہے اس لیے اس احقر نے اس اہم مسئلہ کی جانب توجہ دلانا اپنا فرض سمجھا ہے۔ براہِ کرم اس باب میں علماء اور اہلِ بصیرت برادرانِ اسلام اپنا خیال ظاہر کریں اور اس ناچیز کی بھی اصلاح فرمائیں.
3 comments:
aap ne daaman bach kr likha hai, sach baat ye hai ke is pure nizam me ek ajab tarha ki purisrariyat hai, misal ke taur par bghair gosht wali qurbani 400 Rs fi hissa, yaani 7 hisson ke kul 2800 Rs huey, kya itne rupiyon main pure mulk me kahin bhi bada janwar mil sakta hai? phir qasai ka mehentana, akhbari ishtehar ka kharch, poster ki chhapai, pata nahi sab kaise hota hai. wallah o aalam
assalamoalaikom
aap ne sahie sawal uthaya hai.
aur janab siddiqui sb ka kahna theek hai
اللہ تعالی’ تک(ان کی قربانی کا) نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیز گاری پہنچتی ہے
Post a Comment