To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, October 1, 2011

Power-loom industry is facing recession
But the young are in possession
Wake up dear citizen

Dr Rehan Ansari
ہمارا شہر آج کل  پھر کاروباری مندی مطلب کساد بازاری کا شکار ہے. یہ ایک معمول بن چکا ہے یعنی کچھ دن تک رہ رہ کرخبر آتی رہتی ہے کہ پاورلوم (صنعت پارچہ بافی) پر مندی چھائی ہے۔ تازہ خبر ملتے ہی مجھے ’’حکیم الامت، شاعرِ مشرق، حضرت علامہ اقبالؒ‘‘ (شاید مصرعہ مکمل ہوگیا؟) سے معذرت کے ساتھ ان کے حکیمانہ و پیغامانہ شعر کی پیروڈی کرنی پڑ گئی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
ہمارے یہاں جوان بھی ہیں اور نوجوان بھی، مگر ہمارا حال یہ ہے کہ:
نوابی  روح  جب بیدار ہوتی  ہے  جوانوں  میں
نظر آتے ہیں وہ ریسورٹ میں ہوٹل میں ڈھابوں میں

Powerloom machines used to weave clothes
بچپن سے اب تک ہمیں اکثر خیال آتا رہا ہے کہ پاورلوم کے کاروبار پر جب جب مندی آتی ہے تو ہمارے شہر بھیونڈی (مہاراشٹر، انڈیا) میں اس کا بے پناہ شور مچایا جاتا ہے، میٹنگیں لی جاتی ہیں، احتجاجی مورچے اور جلسے منعقد کیے جاتے ہیں، حکومت کے دفاتر اور وزراء کے مساکن تک چکر کاٹے جاتے ہیں مگر کاروبار میں جب تیزی بہ معنی پھلنا پھولنا ہوتا ہے تو اسے کبھی اس موڈ میں ظاہر نہیں کیا جاتا اور شہر میں کسی تحریکی و اعلیٰ فلاحی کاموں پر لوگوں کو مستعد و اکٹھا ہوتے نہیں دیکھا جاتا۔ ہاں، البتہ، شام ہوتے ہی پرندوں کے جھنڈ کی مانند شہر سے کچھ دور پر، چار پہیوں یا دوپہیوں والی (نئی نویلی) سواریوں کے اژدہام کے ساتھ، کسی ریسورٹ، ہوٹل یا ڈھابوں پر خوش گپیوں اور عیش پرستیوں کے لیے روپیوں کا اسراف کرتے ہوئے جوانوں اور نوجوانوں کو برابر دیکھا جا سکتا ہے۔
اصل میں جب کاروبار زوروں پر چل رہا ہوتا ہے تو روپے کی موٹی موٹی گڈّیاں ہاتھوں سے پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جیب پھول کر بے ڈھب سی لگتی ہے، مصرف سوائے اسراف کے کچھ اور نہیں سوجھتا۔ نظر نظر کا سوال ہے۔



Dhaba, Resort, Resort Food and
Hookah smoking youngsters
مندی کے دنوں میں سیاسی پارٹیوں اور سیاسی منڈلوں کی بھی نکل پڑتی ہے۔ وہ بھی ٹسوے بہانے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں۔ اصل میں دیکھا جائے تو یہ پارٹیاں یا منڈل بھی شہر کے سیٹھوں سے ہی بھرے ہوئے ہیں۔ اس لیے سبھی ’’تُو ہائے گُل پکار، میں چلّاؤں ہائے دِل‘‘ کی ہاہاکار لگاتے ہیں۔ کسی غلط فہمی کی پیدائش سے پہلے ہم واضح کردیں کہ ہم ان سب ( سیاسی اعمال و تحریک) کے خلاف قطعی نہیں ہیں اور نہ ہی دل میں کوئی کدورت ہے۔ مگر مقصدِ تحریر صرف اتنا ہے کہ جب کاروبار میں تیزی ہوتی ہے تو ہم سب اپنے آپ کو، اپنے کاروبار کو، اپنے شہر کو اور اس شہر سے متعلق دوسرے ضمنی کاروبار کو ڈھکے چھپے انداز میں کتنا دھوکا دیا کرتے ہیں؟
کوئی شہر اس وقت ترقی کرتا ہے جب حالات پُرامن ہوں اور آمدنی اچھی ہو۔ لیکن پتہ ہے کہ جب بھی ایسے حالات ہوتے ہیں تو ہم سب کے اندر کا چور جاگ جاتا ہے۔ ہم سب بالکل چُپ سادھ لیتے ہیں۔ ضرورتمندوں سے آنکھیں چراتے ہیں۔ شہر کے لیے ترقیاتی منصوبے (عوامی فلاحی و تعلیمی پڑھیں) بنانے کے لیے صرف کارپوریشن (بلدیہ) پر تکیہ رکھتے ہیں (جو بدقسمتی سے ہمیشہ اُلٹے منصوبے ہی بنایا کرتی ہے)۔ کبھی کسی سیاسی یا نیم سیاسی جماعت کی جانب سے طلبہ کے لیے کوئی ترغیبی اعلان، اسکیم یا اسکالرشپ جاری نہیں ہوئی ہے۔ پاورلوم کے کاروبار میں جدیدترین تکنیک داخل کرنے کی جانب کبھی نوجوانوں کو تحریک نہیں دی گئی۔ کارخانے سنبھالنے والے نوجوانوں پر صرف دو یا تین ہی ذمہ داریاں ڈالی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کاریگر (Weaver worker) وقت پر ڈیوٹی کے لیے آنا چاہئیں، دوسری مقادم (Technician) اور مہتا (Assitant accountant / Supervisor) کی ڈیوٹی کی نگرانی رکھنا اور تیسری یہ کہ پگار (تنخواہ) کے روپے بینکوں سے نکال کر کاریگروں میں تقسیم کرنا... بس...اس سے آگے پاور کابل اور دوسرے اخراجات میں جہاں تک ہوسکے سب ایڈجسٹمنٹ کرتے رہنا ہے!... نہ مستقبل کا کوئی بڑا مقصد ہے، نہ رجحان ہے، نہ نظر ہے اور نہ اس کی کوئی تحریک ہے۔ یہی سبب ہے کہ کوئی درد اٹھتا ہے تو صرف مندی میں، دردمندی میں نہیں!
مندی کے دنوں میں یہ بات بھی خبروں کا حصہ بنا کرتی ہے کہ پاورلوم جیسی گھریلو (چھوٹی) صنعت ملک میں کپڑوں کی پیداوار کا تقریباً ستّر فیصدی حصہ دیتی ہے اور باقی تیس فیصدی حصہ کپڑا ملوں کے ذریعہ تیار ہوتا ہے۔ اس خبر کا دلچسپ حصہ یہ تجزیہ ہے کہ تیس فیصدی ملیں پوری طرح سے منظم نیز ہر سرکاری سہولت سے آراستہ و مستفید ہیں اور ستّر فیصدی ہونے کے باوجود ہم سب غیرمنظم ہیں! یہ رونا بھی ہم بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں۔


سوچنا یہ ہے کہ کیا اس کے منظم ہونے (کرنے) کے لیے کوئی آسمانی مخلوق علیحدہ سے اُترنے والی ہے جو کوئی جادوئی ڈنڈا پھیرے گی اور سب منظم ہو جائے گا؟ اس کے لیے ہم ہی قصوروار ہیں۔ اس کا لائحۂ عمل اسی پُرامن اور پُرآمدنی دور میں ترتیب دیا جانا ضروری ہے۔مگر ہم سب ٹھہرے ہوٹل وادی، ڈھابہ وادی۔ آخر حقّے کے کش اور چکن کی ڈِش سے اٹھنے والے دھوئیں میں ہمیں کوئی تعمیری خواب نظر کہاں سے آئے گا.

2 comments:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

wah, ab aap shair ho gae, waise mazmoon bohot achcha hai.

Mudabbir said...

hamare nawjawano ki soch kuch is tarah ha...
APNE AAMAL PE PADHTI HAI NAZAR TO MUJHE NEEND NAHI AATI HAI,
"YA RAB"
PHIR
YE SOCH KE SOJATA HOON SUKOON SE KE TERA EK NAAM " REHMAAN" BHI HAI.