Nobody wrestled Modi The results were obvious, Nothing astonishing Dr. Rehan Ansari |
گجرات انتخابات میں کسی نے مقابلہ کیا ہی نہیں تو بھلا ہار جیت کی گفتگو ہی کیوں ہو۔ جس طرح گجرات میں مودی کی جیت ہوئی ہے اسے بی جے پی کی جیت سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا، یہ مودیتوا کی جیت ہے، اسی کی مانند گجرات میں کانگریس سمیت سونیا گاندھی، منموہن سنگھ اور راہل گاندھی کی زبردست شکست ہوئی ہے۔
Oh! Congress... High Drama |
ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو کیشوبھائی پٹیل نے بھی کسی ایشو کے بغیر محض اپنی ’پٹیل برادری‘ کے تحفظات اور حصہ داریوں کی بابت الیکشن میں حصہ لیاتھا۔ اس بات میں ریاست بھر کے عوام کو دلچسپی بھلا کیونکر ہو سکتی تھی۔ وہ گجرات الیکشن نہیں مودی سے نجی لڑائی لڑ رہے تھے۔ انھیں تو کثیر ووٹ ملنے کے امکانات پہلے اعلان کے ساتھ ہی ختم ہوچکے تھے۔ وہ بھی مقابلہ میں نہیں تھے۔ جتنی سیٹیں وہ اسمبلی انتخاب میں جیت کر لائے ہیں اس سے زیادہ مودی کے ساتھ سودے بازی سے مل جاتیں۔ ویسے ہمارا ایک شک یہ بھی ہے کہ وہ درپردہ مودی سے ملے ہوئے ہیں اور مودی کے ہاتھ نہ آنے والے علاقوں میں دوسری پارٹیوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے ڈمی انداز سے انتخاب میں اترے تھے، یہ بات جلد ہی کھل سکتی ہے اگر وہ دوبارہ سیاسی مفاہمت کے بہانے اپنی پارٹی کو بی جے پی میں ضم کرنے کا ڈرامہ کریں گے۔
غور سے دیکھا جائے تو انتخابات میں اس مثلث کا ایک ہی راس مستحکم تھا اور باقی دونوں راس ’ہرچند کہیں ہے نہیں ہے‘ کے مصداق نظروں سے اوجھل ہی رہتے تھے۔
اس انتخاب کا سب سے کربناک پہلو یہی تھا کہ مسلم اقلیت کو ہر پارٹی نے اچھوت کی مانند نظر انداز کر رکھا تھا۔ مودی کا ترقیات کا ’پاپ سانگ‘ کچھ اتنی تیز آواز میں بجتا رہا کہ بےچارے مظلوم مسلمانوں کی نحیف آواز کا نمائندہ کوئی نہیں بنا۔ (ان ترقیات کے تعلق سے بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر سرِ دست ہمارا موضوع دوسرا ہے)۔ ایسی ترقیات کس کام کی جس میں کسی ریاست کی عوام کا ایک طبقہ محض تحفظِ جان و مال کی ضمانت کو ترستا ہو۔ ریاست میں اس کے حقوقِ جمہوری تو کجا حقوقِ انسانی بھی اسے نہ ملتے ہوں۔ انھیں حقوق دلانے کی بات کرنے والوں کی کھلے عام تذلیل و تضحیک کی جاتی ہو۔ کانگریس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمانوں کے پڑنے والے صد فیصد ووٹ اسی کو مل سکتے ہیں؛ ان کے حقوق کی بازیابی کی بات بھی منہ سے نہیں نکالی۔ کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟ یہ استفسارِ معترضہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا گجرات واقعی کسی جمہوری عمل سے گذر رہا تھا؟ یا وہاں کسی ڈکٹیٹر کی بازنشینی میں بھرپور تعاون دیا جارہا تھا؟، اس کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا تھا۔ کانگریس نے جس بھیگی بلی کی مانند گجرات کی سرزمین پر قدم رکھا اور جگہ جگہ مودی کے مکھوٹے سے ڈرتے ہوئے گجرات کو سرینڈر کردیا ہے، قربان کردیا ہے، اس کا اپنا مہیب سایہ کانگریس کا بہت دور تک پیچھا کرے گا۔ دوسری ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی نئی جنریشن اب ہوش کی آنکھیں کھول چکی ہے۔ اسے صرف کانگریس کی ماضی کی کارستانیاں ’ڈھنگ سے‘ سنانے اور بتانے والے افراد کی ضرورت ہے۔ جو یقینا ہمارے درمیان کم ملتے ہیں۔
گجرات انتخابات کے دوران یہ تبصرہ بھی بڑے زوروشور سے ہوتا آیا کہ مودی کا اگلا پڑاؤ نئی دہلی ہوگا۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں وہ بی جے پی کے وزیرِ اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور اﷲ کرے کہ ایسا ہی ہو تو گجرات کے مسلمانوں کو بالواسطہ طور سے مودی اور اس کی اذیتوں سے چھٹکارا ملنے کی سبیل پیدا ہو سکتی ہے۔ مودی کو گجرات کی سرحد سے دور مصروف رہنا لازمی ہوگا۔ منوواد (ہندوتوا) میں یقین رکھنے والی جماعت میں اپنی ذات کی لڑائی لڑنی ہوگی، کیونکہ مودی بنیا ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کا مرکزی دفتر میڈیا کے اس سوال کا جواب بڑے گول مول انداز سے دے رہا ہے کہ کیا واقعی مودی آئندہ پارلیمانی الیکشن میں مرکزی کردار نبھانے والے ہیں۔ مودی کی ہیٹ ٹرک بی جے پی کے لیے خوشی کا باعث کتنی ہے اس کا اظہار کم ملتا ہے مگر اس کی پیشانی پر تردّد کے آثار بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہندوتوا اور مودیتوا ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں ہیں بلکہ ان میں بعدالمشرقین پایا جاتا ہے۔ دونوں کی تعریفیں الگ ہیں۔ مودی کی شبیہ پر لگے گجرات فسادات کے داغ دھوئے نہیں دھلتے۔ بی جے پی مرکز میں تنہا پارٹی نہیں ہے بلکہ وہ این ڈی اے کا ایک حصہ ہے اور این ڈی اے کی دوسری پارٹیاں مودی کے ساتھ نمایاں اختلاف رکھتی ہیں۔ یوں مودی خود بی جے پی کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔ بی جے پی کے لیے وہ گلے کی ہڈی ثابت ہو رہے ہیں اور ہوسکتا ہے وہ اس کی لائبلیٹی (Liability) بھی ثابت ہوں۔
بہرحال گجرات کے اسمبلی نتائج (مودی پڑھیں) پر قومی میڈیا ایک دکاندار کی مانند کچھ دنوں تک خیالات اور آرا کی پُڑیاں بیچے گا جبکہ یہ حیرت انگیز قطعی نہیں ہیں۔ ہاں، اس بیچ بی جے پی کی پریشانیاں مودی کی وجہ سے بڑھ جانے کے امکانات ہیں کیونکہ سنگھ پریوار کسی غیربرہمن کو اپنے شانوں کے برابر اٹھنے دینے کا روادار کبھی نہیں رہا ہے۔