To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, December 27, 2012

Nobody wrestled Modi
The results were obvious, Nothing astonishing

Dr. Rehan Ansari
نریندرمودی نے ہیٹ ٹرک کی، کیا کوئی خاص بات ہوئی؟... گجرات الیکشن میں اس بار بھی بی جے پی کی جیت ہوئی، کیا یہ غیرمتوقع تھی؟... ہرگز نہیں! گجرات کے اسمبلی انتخابی نتائج توقع کے عین مطابق ہی نکلے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ البتہ ہماچل پردیش کے نتائج یقینا کسی قدر حیرت انگیز نکلے۔ جس کے نتیجہ میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ امسال کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کراری شکست ہوئی ہے۔ گجرات جیتنا بی جے پی کی جیت ہرگز نہیں ہے بلکہ ہماچل ہار جانا بی جے پی کی شکست ہے!
گجرات انتخابات میں کسی نے مقابلہ کیا ہی نہیں تو بھلا ہار جیت کی گفتگو ہی کیوں ہو۔ جس طرح گجرات میں مودی کی جیت ہوئی ہے اسے بی جے پی کی جیت سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا، یہ مودیتوا کی جیت ہے، اسی کی مانند گجرات میں کانگریس سمیت سونیا گاندھی، منموہن سنگھ اور راہل گاندھی کی زبردست شکست ہوئی ہے۔



Oh! Congress... High Drama
انتخابات پر اور اس کے نتائج پر ابھی ماہرین کا تبصرہ اور اعدادوشمار کی پیشکش کچھ دنوں تک جاری رہے گی۔ ہم یہاں انتخابی مہم کے دوران کانگریس کے ہیوی ویٹس کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ کانگریس اور آلِ کانگریس نے شروع سے ہی دفاعی پوزیشن لے رکھی تھی۔ اسے برسرِاقتدار مودی کے خلاف کھلا پرچار کرتے ہوئے کسی دن بھی نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ اس کے ہیوی ویٹس کے بیانات مودی کے لیے کسی ٹانک کی مانند ثابت ہوتے رہے۔ مودی نے اپنی پروپیگنڈہ مشینری کا خوب استعمال کیا۔ کانگریسی جغادری تو کچھ اس انداز میں بیانات دیتے تھے جیسے پہلے سے پلاننگ کے تحت مودی کو بغیر تھکے ہارے پلٹ کر وار کرنے کا بندوبست کرنے آئے تھے۔ ایک مضحکہ خیز صورت پیدا ہوچلی تھی۔ کانگریسی ماں بیٹے نے اپنے دورے میں ہر موقع پر یہ خیال رکھا کہ ان کی زبان سے ایسا کوئی جملہ نہ نکلنے پائے جو مودی یا اس کی طرزِحکومت پر حملہ تصور کیا جائے۔ اور اقلیتوں کے نمائندہ وزیرِ اعظم نے تو گجرات کی مٹی پر جانے کے بعد وہاں گذشتہ زائد از دس برس سے اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافی کو ’’محسوس‘‘ کیا!... ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا!۔ شرم کا مقام ہے۔ اپنے دورے میں وزیرِاعظم نے اقلیتوں (مسلمانوں پڑھیں) کے علاقوں میں حاضری تو چھوڑئیے وہاں کی سڑک سے گذرجانے میں بھی احتیاط ہی روا رکھی۔ یہاں یہ تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ راجیوگاندھی فاؤنڈیشن ، جس کی سربراہ سونیاگاندھی ہیں، نے ماضی میں (May 2005) مودی برانڈ کو ’’بہترین معاشی منتظم کا راجیوگاندھی قومی ایوارڈ‘‘ بھی دیا ہوا ہے۔ پھر بھلا ایسے ’بہترین منتظم‘ کے خلاف وہ انتخابات میں حصہ کیسے لے سکتے تھے؟ مودی کو ہیٹ ٹرک تو کرنی ہی تھی۔
ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو کیشوبھائی پٹیل نے بھی کسی ایشو کے بغیر محض اپنی ’پٹیل برادری‘ کے تحفظات اور حصہ داریوں کی بابت الیکشن میں حصہ لیاتھا۔ اس بات میں ریاست بھر کے عوام کو دلچسپی بھلا کیونکر ہو سکتی تھی۔ وہ گجرات الیکشن نہیں مودی سے نجی لڑائی لڑ رہے تھے۔ انھیں تو کثیر ووٹ ملنے کے امکانات پہلے اعلان کے ساتھ ہی ختم ہوچکے تھے۔ وہ بھی مقابلہ میں نہیں تھے۔ جتنی سیٹیں وہ اسمبلی انتخاب میں جیت کر لائے ہیں اس سے زیادہ مودی کے ساتھ سودے بازی سے مل جاتیں۔ ویسے ہمارا ایک شک یہ بھی ہے کہ وہ درپردہ مودی سے ملے ہوئے ہیں اور مودی کے ہاتھ نہ آنے والے علاقوں میں دوسری پارٹیوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے ڈمی انداز سے انتخاب میں اترے تھے، یہ بات جلد ہی کھل سکتی ہے اگر وہ دوبارہ سیاسی مفاہمت کے بہانے اپنی پارٹی کو بی جے پی میں ضم کرنے کا ڈرامہ کریں گے۔
غور سے دیکھا جائے تو انتخابات میں اس مثلث کا ایک ہی راس مستحکم تھا اور باقی دونوں راس ’ہرچند کہیں ہے نہیں ہے‘ کے مصداق نظروں سے اوجھل ہی رہتے تھے۔
اس انتخاب کا سب سے کربناک پہلو یہی تھا کہ مسلم اقلیت کو ہر پارٹی نے اچھوت کی مانند نظر انداز کر رکھا تھا۔ مودی کا ترقیات کا ’پاپ سانگ‘ کچھ اتنی تیز آواز میں بجتا رہا کہ بےچارے مظلوم مسلمانوں کی نحیف آواز کا نمائندہ کوئی نہیں بنا۔ (ان ترقیات کے تعلق سے بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر سرِ دست ہمارا موضوع دوسرا ہے)۔ ایسی ترقیات کس کام کی جس میں کسی ریاست کی عوام کا ایک طبقہ محض تحفظِ جان و مال کی ضمانت کو ترستا ہو۔ ریاست میں اس کے حقوقِ جمہوری تو کجا حقوقِ انسانی بھی اسے نہ ملتے ہوں۔ انھیں حقوق دلانے کی بات کرنے والوں کی کھلے عام تذلیل و تضحیک کی جاتی ہو۔ کانگریس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمانوں کے پڑنے والے صد فیصد ووٹ اسی کو مل سکتے ہیں؛ ان کے حقوق کی بازیابی کی بات بھی منہ سے نہیں نکالی۔ کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟ یہ استفسارِ معترضہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا گجرات واقعی کسی جمہوری عمل سے گذر رہا تھا؟ یا وہاں کسی ڈکٹیٹر کی بازنشینی میں بھرپور تعاون دیا جارہا تھا؟، اس کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا تھا۔ کانگریس نے جس بھیگی بلی کی مانند گجرات کی سرزمین پر قدم رکھا اور جگہ جگہ مودی کے مکھوٹے سے ڈرتے ہوئے گجرات کو سرینڈر کردیا ہے، قربان کردیا ہے، اس کا اپنا مہیب سایہ کانگریس کا بہت دور تک پیچھا کرے گا۔ دوسری ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی نئی جنریشن اب ہوش کی آنکھیں کھول چکی ہے۔ اسے صرف کانگریس کی ماضی کی کارستانیاں ’ڈھنگ سے‘ سنانے اور بتانے والے افراد کی ضرورت ہے۔ جو یقینا ہمارے درمیان کم ملتے ہیں۔



گجرات انتخابات کے دوران یہ تبصرہ بھی بڑے زوروشور سے ہوتا آیا کہ مودی کا اگلا پڑاؤ نئی دہلی ہوگا۔ ۲۰۱۴؁ء کے پارلیمانی انتخابات میں وہ بی جے پی کے وزیرِ اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور اﷲ کرے کہ ایسا ہی ہو تو گجرات کے مسلمانوں کو بالواسطہ طور سے مودی اور اس کی اذیتوں سے چھٹکارا ملنے کی سبیل پیدا ہو سکتی ہے۔ مودی کو گجرات کی سرحد سے دور مصروف رہنا لازمی ہوگا۔ منوواد (ہندوتوا) میں یقین رکھنے والی جماعت میں اپنی ذات کی لڑائی لڑنی ہوگی، کیونکہ مودی بنیا ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کا مرکزی دفتر میڈیا کے اس سوال کا جواب بڑے گول مول انداز سے دے رہا ہے کہ کیا واقعی مودی آئندہ پارلیمانی الیکشن میں مرکزی کردار نبھانے والے ہیں۔ مودی کی ہیٹ ٹرک بی جے پی کے لیے خوشی کا باعث کتنی ہے اس کا اظہار کم ملتا ہے مگر اس کی پیشانی پر تردّد کے آثار بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہندوتوا اور مودیتوا ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں ہیں بلکہ ان میں بعدالمشرقین پایا جاتا ہے۔ دونوں کی تعریفیں الگ ہیں۔ مودی کی شبیہ پر لگے گجرات فسادات کے داغ دھوئے نہیں دھلتے۔ بی جے پی مرکز میں تنہا پارٹی نہیں ہے بلکہ وہ این ڈی اے کا ایک حصہ ہے اور این ڈی اے کی دوسری پارٹیاں مودی کے ساتھ نمایاں اختلاف رکھتی ہیں۔ یوں مودی خود بی جے پی کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔ بی جے پی کے لیے وہ گلے کی ہڈی ثابت ہو رہے ہیں اور ہوسکتا ہے وہ اس کی لائبلیٹی (Liability) بھی ثابت ہوں۔
بہرحال گجرات کے اسمبلی نتائج (مودی پڑھیں) پر قومی میڈیا ایک دکاندار کی مانند کچھ دنوں تک خیالات اور آرا کی پُڑیاں بیچے گا جبکہ یہ حیرت انگیز قطعی نہیں ہیں۔ ہاں، اس بیچ بی جے پی کی پریشانیاں مودی کی وجہ سے بڑھ جانے کے امکانات ہیں کیونکہ سنگھ پریوار کسی غیربرہمن کو اپنے شانوں کے برابر اٹھنے دینے کا روادار کبھی نہیں رہا ہے۔

Tuesday, November 20, 2012

Why the harmed will respect Bal Thackeray
Dr. Rehan Ansari
بال ٹھاکرے ایک اچھے اور نافع انسان تھے، مراٹھیوں کے لیے۔ ایک اچھے لیڈر تھے، مراٹھیوں کے لیے۔ اور کہیں عقیدوں میں بھگوان بھی تھے، مراٹھیوں کے لیے۔ کوئی شک نہیں۔ یہ بالکل سچی بات ہے۔ مگر... وہ کوئی عام شخص تو تھے نہیں! دوسروں کی زندگیوں پر بھی ان کے اثرات تھے۔ مراٹھیوں کے علاوہ بھی دیگر لوگ یاتو مہاراشٹرین ہیں یا یہاں بودوباش اور روزگار رکھتے ہیں۔ اِن دیگر مہاراشٹرینوں اور ہندوستانیوں کے لیے وہ کتنے اچھے تھے کیا یہ سوال نہیں کیا جاسکتا؟ اُن کی ذات سے مہاراشٹر یا ہندوستان کے دوسرے لوگوں کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوا کیا یہ سوال نہیں کیا جاسکتا؟ کیا ان سوالوں سے ان کا احترام مجروح ہوتا ہے؟
ان کی موت پر ہونے والا بند (میڈیا کی زبانی چلّا کر) صرف کہنے سے رضاکارانہ تھا یا اصل میں برائے خوف و اندیشہ تھا، اس کی حقیقت افشا کرنے کا گناہ فیس بک پر کرنے والی دو عورتوں کو جس انداز میں سزا کا موجب ٹھہرایا گیا اور ایک کے چچا کے اسپتال کو جو نقصان پہنچایا گیا وہ اس بات کا غماز ہے کہ ’’پرانی عادتیں مشکل سے ہی چھوٹتی ہیں‘‘ اور اس عادت کو ڈالنے والا کون ہے اسے بیان کرنے کی شاید کوئی ضرورت نہیں ہے۔عقلمند را اشارہ کافی است۔
یہاں سوال ہمارا ریاستی حکومت سے ہے جو پوری طرح شہ دینے کی سازش میں ملوث معلوم ہوتی ہے۔ وہ شیوسینکوں کے جذبات کو کیش کرنا چاہتی ہے تبھی تو بال ٹھاکرے کے انتم سنسکار کو بھی شیواجی پارک جیسے عوامی مقام پر انجام دینے کی خصوصی اجازت کا پرویژن تلاش کرنے پر ایڈمنسٹریشن کو لگا دیا جس نے محض کچھ گھنٹوں میں انگلی رکھ کر حکومت کو بتلا دیا اور پولیس کے ذریعہ یہ کام آسان کروا لیا۔ ہمیں کسی بھی خبر نامہ میں یہ نہیں نظر آیا کہ اس کی اجازت طلب کرنے والا اصلی شخص کون تھا؟ حکومت ہی کیا ایک عام آدمی بھی یہ جانتا تھا کہ اب کل کے روز اسی جگہ پر ’بال ٹھاکرے میموریل‘ کی تعمیر کرنے کا مطالبہ شیوسینک ضرور کریں گے۔
 شیواجی پارک پر میموریل کے قیام کے لیے بھی وہ دبی زبان سے ’ہاں‘ کہتی دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ اس جگہ میموریل کے قیام سے دہائیوں اور صدیوں تک تنازعہ کا ایک بیج بھی بو دیا جائے گا۔

بال ٹھاکرے کی چتا پر آخری رسوم میں حکومت کے ذریعہ قومی اعزاز کی شمولیت بھی استفسار طلب ہے کہ جو شخص زندگی بھر اعلانیہ جمہوریت کا مذاق اڑاتا رہا ہے، اور ہٹلرشاہی یا تانا شاہی کا علمبردار رہا ہے، وہ راتوں رات خادمِ ملک و قوم کا اعزاز کیسے حاصل کرلیتا ہے؟ جس نے زندگی بھر ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈے کو پسند کیا تھا ،اس لیڈر کی نعش کو بھگوا پرچم میں ہی لپیٹنے کے لیے کسی معتقد نے مطالبہ کیوں نہیں کیا؟


ہم محسوس کرتے ہیں کہ شاہین ڈھوڈھا کا معاملہ گرما کر حکومت شیوسینکوں کو اکسا نے اوردوسروں کو (شیوسینکوں کی زبان اور ہاتھ سے) دھمکانے کا کام کررہی ہے کہ کسی نے اس میموریل کی تنصیب و تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے یا بننے کی کوشش کی تو اس کی اور اس کے جملہ متعلقین کی خیر نہیں ہوگی! وگرنہ کیا معنی ہیں کہ حکومت آزادئ اظہار رائے پر حملہ کرنے والوں اور جسمانی و مالی نقصان پہنچانے والوں کو اچانک غائب بھی کردیتی ہے۔
ہم بال ٹھاکرے کے معتقدین کے جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ کچھ دہائیوں تک بال ٹھاکرے کی مہاراشٹر کے بے تاج بادشاہ یا ریموٹ کنٹرول رہنے کی حیثیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی تسلیم کرنے والی بات ہے کہ دنیا میں اس شخصی یا روحانی درجہ یا تقدیس کو پانے والی وہ تنہا شخصیت تو تھے نہیں۔ اور بھی محترم شخصیات زندہ بھی رہی ہیں اور مرتی بھی رہی ہیں۔مگر کسی کے احترام و عقیدت کو اپنالینا یہ شخصی انتخاب ہے۔ ہم بھی چاہیں گے کہ شیوسینکوں کی خواہش یعنی میموریل کی تعمیر و تنصیب ہو، ہو، ضرور ہو، اور اس بارے میں ہمارا تو مشورہ ہے کہ بال ٹھاکرے نے جہاں اپنی زندگی کے اہم ترین شب و روز گذارے ہیں یعنی ’ماتوشری بنگلے‘ میں یا کلانگر (باندرہ) میں ہی ان کا میموریل قائم کرکے انھیں صحیح خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔ وگرنہ عوامی مقامات پر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اب میموریل کی تعمیر یا مقبروں اور سمادھیوں کی تعمیر کا ایک مضبوط حوالہ ہاتھ آجائے گا اور ہندوستان میں جگہ جگہ صرف میموریل ہی رہ جائیں گے اور زندہ لوگوں کے لیے ہمیشہ نئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے
۔

Monday, October 29, 2012

Let's Propagate the Message of
Hajj Sermon 1433 H

Dr. Rehan Ansari
امسال یوم العرفہ یعنی یومِ حج Hajj Day 2012  کو مفتئ اعظم سعودی عربیہ شیخ عبدالعزیز بن عبداﷲ آل الشیخ صاحب کے خطبۂ حج کو آپ نے ملاحظہ کیا؟ ہم اس کے چند جملے یا اقتباسات کو یہاں نقل کریں گے مگر یہ انتخاب محض اپنی تحریری ضرورت کے لیے ہے؛ وگرنہ پورا خطبہ اپنے موضوع پر محیط، بے حد جامع اور کسا ہوا ہے۔ اسے ضرور ملاحظہ کرنا چاہیے۔اس میں دئیے گئے پیغام کا ابلاغ عام کرنا چاہیے۔ 
ہم کچھ لکھنے سے قبل یہ بھی تحریر کرنا چاہیں گے (جو رفتہ رفتہ ایک رسم کی صورت بن گئی ہے) کہ دنیا کا دیگر میڈیا مسلمانوں کے مرکز سے جاری ہونے والے بیش و کم ایک گھنٹہ طویل اس اہم فرمان کی چند سطریں بھی دینا مناسب خیال نہیں کرتا۔ ہم اس رویہ کو ’کتنی عجیب بات ہے‘ جیسے بے معنی مکالمہ کی نذر بھی نہیں کرنا چاہتے۔بلکہ اسے ’نرا تعصب‘ Open bias  کہتے ہیں۔ کیونکہ اس خطبۂ حج میں ہر سال ہمارا بین الاقوامی مقدمہ بھی پیش کیا جاتا ہے، اصلاح و تعمیر کی باتیں بھی ہوتی ہیں، احادیثِ نبویؐ کے درس کی روشنی میں پند و نصائح بھی کیے جاتے ہیں، رواداری کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، مظلوم قوموں اور ممالک کی آہ و بکا اور استحصال کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے، ان کے حقوق کی پامالی اور سلبی کا بیان بھی ہوتا ہے، اقوامِ عالم کے لیے امن و سلامتی اور ہدایت کی دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں، دشمنانِ انسانیت سے پناہ اور ان کی تباہی نیز جملہ انسانوں کے تحفظ و بقا کے لیے مناجات کی جاتی ہیں۔اور بھی بہت کچھ احسن اس میں شامل رہتا ہے مگر دنیا کا دُھرندر میڈیا اپنے بایوسکوپ میں اس جھانکی کو شامل نہیں کرتا، وہ سبھی انسانوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس دیتا ہے کہ اس بامقصد پیغامی و دعائیہ اجتماع کو وہ دیکھ اور سن نہ سکیں۔
بہرکیف ہمیں اس جانب آئندہ بھی کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ سب صحیح ہوجائے گا، مگر جائے شکایت پیدا ہوئی ہے تو اس سے مفر کرنا غیرذمہ داری ہے، اس لیے یہ معترضہ سطور ہم نے لکھی ہیں۔
اردو اخبارات ایجنسیوں سے موصولہ اقتباسات شائع تو کرتے ہیں مگر کبھی ان پر تبصراتی و تجزیاتی گفتگو نہیں کرتے۔ ہم مسلمانوں کی معاشرت بھی ایسی ہوئی ہے کہ مرکزِ اسلام سے آنے والے اس پیغام کا تصور بھی ہم ایک رسم سے زیادہ نہیں کرتے۔ یوں بھی یوم الحج کو ہمارے یہاں عیدِ قرباں کی تیاریوں کی ہماہمی ہوتی ہے۔ اس لیے لوگ باگ حج کی خبریں حاصل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ امامِ حج کا خطبہ بات چیت کا موضوع نہیں بن پاتا۔ گویا ہم بھی اپنی اپنی سطح پر اس جانب تساہلی برتنے کے عادی ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے یہاں طویل عرصہ سے منفی انداز سے پروپیگنڈہ حاصل کرتی ہے کہ امامِ حرم یا امامِ حج جو بھی خطبہ دیتے ہیں وہ سعودی حکام کی ایما پر تحریر کردہ ہوتا ہے۔ اس میں کتنا سچ ہے یا دروغ ہمیں نہیں پتہ! البتہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دوسرے دن بھی اﷲ کے اُن بندگان سے ہماری ملاقات نہیں ہو پاتی جو خطبہ کے اہم نکات پر کوئی رائے یا خیال ظاہر کرتے! جبکہ ہماری ناچیز رائے یہ ہے کہ ہمیں اس پیغام کو محض عرفات کی حدود سے متعلق نہ سمجھتے ہوئے جمیع مسلمینِ عالم کو اس کے اہم اور بنیادی و رہنما نکات کا ابلاغ کرنا چاہیے۔
آئیے ہم ان پیغامات کا ابلاغ کریں جو امامِ حج نے اپنے خطبہ میں دیئے ہیں۔ اتفاق سے یہ پیغامات اہلِ دوَل و اہلِ ثروت لوگوں کے لیے مخصوص بھی ہیں۔ اس لیے بھی کہ حج کی فرضیت صاحبِ استطاعت پر ہی ہے۔ مگر یہ پیغام جملہ عالمِ اسلام کو دیا جاتا ہے۔ اس پیغام کو ملت کے ان تمام دولتمندوں تک بھی پہنچنا چاہیے اور متاثر بھی کرنا چاہیے جو میدانِ عرفات میں حاضر نہیں تھے۔ ان لوگوں تک بھی پہنچنا چاہیے جو آج زمرۂ مستحقین میں ہیں مگر کل جب دن پلٹیں گے تو صاحبِ استطاعت ہو سکتے ہیں۔ اس حکیمانہ پیغام میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
’’دہشت گردی اور ظلم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اظہارِ رائے اور جمہوریت کے نام پر اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے،مسلمان اپنے مال کو علم کی ترویج کے لیے خرچ کریں، مسلم امت کو ترقی کرنی ہے تو ٹیکنالوجی کی طرف جائیں، مسلمان معاشرے کا مفید فرد ہوتا ہے، اسلام میں جبر اور ظلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مسلمان باہر کے ملکوں سے اپنی دولت نکال کر اپنے معاشروں میں لائیں، مسلمانوں کو اپنی مشکلات اپنے وسائل سے حل کرنا ہوں گی، وسائل کو مسلمانوں کی ترقی اور بہبود پر خرچ کرنا چاہیے، مسلمانوں کو پورے وسائل سے استفادہ اور ان میں اضافہ بھی کرنا چاہیے،مال حلال ذریعہ سے کمایا جائے اور ایسے خرچ کیا جائے جیسے ہمیں حکم دیا گیا ہے، مسلمانوں کو باہمی نفرتوں سے بچنا ہوگا، مسلمانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ بھی نیکی کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کرتے ہیں، نبی کریمؐ کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے، اس دین میں نہ کوئی (نجی) فیصلہ ہے نہ کوئی خاندان ہے نہ حسب نسب کا (مقام) ہے، یہ ایک ایسا دین ہے جو تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، جس شخص کے پاس جتنا تقویٰ ہے اتنا ہی وہ زیادہ عظیم ہے، اس امت میں صحت کے مسائل ہیں، اس امت میں باہمی اتحاد کے بھی مسائل ہیں،یہ امت باہمی اتحاد سے ہی طاقت اور تقویت حاصل کر سکتی ہے، دنیا میں شر کا غلبہ ہے، خیر کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دائرے سے سود کو ہٹادیں اور تجارت کو فروغ دیں
۔

Sunday, October 7, 2012

Hamid Iqbal Siddiqui and his team
has ignited the fervour of competition
in Urdu Medium Students

Dr. Rehan Ansari
یہ دورِ مسابقت ہے۔ پروفیشنل اسٹیٹس کے بغیر اس دور میں جینا محال ہے۔ یہ اسٹیٹس لاشمار تقاضوں سے معمور ہے۔ نت نئے تقاضے۔ ان تقاضوں کی تکمیل میں بھی مسابقت داخل ہے۔ روحانیت کے تقاضے الگ ہیں اور مادّیت کے تقاضے مختلف ہیں۔ اپنی تہذیبی قدروں کی پاسداری کے ساتھ اخلاقیات کو جو تباہ ہونے سے بچا لے اور دنیا کے بہترین اسباب کو اپنی تحویل میں کرلے تو پھر اس کی زندگی قابلِ رشک بن جاتی ہے۔ ایسے ہی افراد کی تیاری میں جٹی ہوئی ہے حامد اقبال صدیقی Hamid Iqbal Siddiqui کے ساتھ کوئز ٹائم (ممبئی) Quiz Time, Mumbai کی ٹیم۔ سوالوں کے جھمیلے اور جوابوں کے میلے کے ساتھ۔عام معلومات کا مقابلہ۔ عام معلومات جو اصل میں خاص معلومات ہوا کرتی ہیں اور بہت عام لوگوں میں نہیں ملا کرتیں۔


Principal Akhlaq Khan, Principal Saba Patel Qureshi, Hamid Iqbal Siddiqui,
and Rafique Gulab seen with the Final Round Teams at one of the programmes
کوئز ٹائم، ممبئی کا پروگرام بھی بڑا متنوع ہوتا ہے۔ رنگارنگ اسٹیج، جدید تکنیکی لوازمات، الیکٹرانک اور کمپیوٹر کے آلات سے مزین، اسپاٹ لائٹس کا استعمال، موسیقی ریز اور حوصلہ بخش نغمات سے سجی محفل کا سماں، ایک ریئلیٹی شو کی مانند تعلیمی تفریح کا بے تکلف اظہار و اہتمام ہوتا ہے۔ اردو میڈیم کے سیکنڈری اسکولوں کے مابین کوئز کے یہ مقابلے حقیقتاً اردومیڈیم اسکولوں کے طلبہ میں ان کی عمر و مزاج سے ہم آہنگ ہوکر مسابقت کا جذبہ اور حوصلہ افزوں کرتے ہیں۔ کبھی سنجیدگی، کبھی لطیفے... کبھی چھوٹی موٹی چلبلی شرارتیں... کبھی رونا، کبھی ہنسنا... کبھی فخر کبھی مایوسی... یہ سارے مناظر لہروں کی مانند صبح سے شام تک اٹھتے رہتے ہیں اور وقت کا دریا اپنا سیل جاری رکھتا ہے۔ اس پورے عمل میں کوئزٹائم کی ٹیم اپنے کپتان حامد اقبال صدیقی کے ساتھ پورے انہماک کے ساتھ تواتر اور تسلسل کو قائم رکھتی ہے۔ اسٹیج پر حامد اقبال صدیقی کے ساتھ پرنسپل اخلاق خان اور رفیق گلاب نیز دیگر رفقا بچوں پر سوالات کے تیر برساتے رہتے ہیں اور صحیح یا غلط جواب پر سامعین و ناظرین کو اقبال عالم کی لائیو موسیقی میں چٹکلوں، ٹپس، تحیر اور کھلکھلاہٹ کے ساتھ کچھ یوں جوڑتے ہیں کہ ایک دائرہ مکمل ہوجاتا ہے اور آڈیٹوریم میں موجود ہر فرد اپنی فزیکل پریزنس (جسمانی حاضری) کو بھی محسوس کرتا ہے۔ ’چھوٹے سے بریک‘ میں آڈینس راؤنڈ کے سوال کا جواب دینے (یعنی انعام) کے لیے گینگ ویز میں حامد اقبال صدیقی کے ساتھ ریس کا ایک پُرلطف سماں ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر گر پڑنے کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ کسی ہنگامی یا ہنگامہ خیز حالت سے بچنے کے لیے حامد اقبال اکثر اس راؤنڈ میں خواتین کے لیے ایک تہائی ریزرویشن بھی نافذ کردیا کرتے ہیں۔


Hamid Iqbal Siddiqui and Principal Akhlaque Khan along with
Prize winner students at one competition
اس پروگرام کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ خشک سوالات کو ماسک کرنے کے لیے اردو کی روایتی اور شعری شیرینی کا لفافہ بھی نکل آتا ہے۔ اس طرح اپنی زبان کی روایات اور تہذیب کی غیرمحسوس منتقلی اور تحفظ کی راہ پیدا ہو جاتی ہے۔ معاشرے میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عام ہونے والے کوئز مقابلوں میں نظر آنے والے پھوہڑپن اور سطحیت سے یہ پروگرام بالکل پاک رہتا ہے۔ اسکورِنگ کا عمل شفاف ہوتا ہے۔ حصہ لینے والی طلبہ کی ٹیموں کے نام بھی اردو کے شعرا و اُدبا کے علاوہ اردو کے حسین رمزیہ الفاظ سے منتخب کیے جاتے ہیں۔
جنرل نالج کے ہزاروں کے سوالات کا انتخاب، مختلف ادوار جیسے تصویری (ویژوول) راؤنڈ، صدا (آڈیو) راؤنڈ کے سوالات کا اَپڈیٹیڈ انتخاب اور ان کی ترتیب و تحفظ ایک انتہائی ادق کام ہے جو حامد اقبال صدیقی دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ ایسے سوالات کا ذخیرہ ہے جو کسی بھی طالب علم کے لیے مستقبل میں مسابقتی دور میں کام بھی دے سکتے ہیں اور ذہن کی بند کواڑیں کھولنے کے لیے مفتاح بھی بن سکتے ہیں۔
اس پروگرام کے شرکا میں صرف اسکولی طلبہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اسے سننے اور طلبہ کے دلچسپ مقابلوں کو دیکھنے کے لیے شہر اور بیرونِ شہر سے اردو شعر و نثر کی دنیا کی اہم شخصیات نیز مشہور تعلیمی اداروں کے سربراہان و اربابِ حل و عقد بھی حاضر ہوا کرتے ہیں، سیاسی اور سماجی و ثقافتی اربابِ فن بھی پوری دلچسپی کے ساتھ آتے ہیں۔ حامد اقبال صدیقی ایسی شخصیات سے نہ صرف طلبہ کو متعارف کرواتے ہیں بلکہ ان سے اِنٹرایکٹ اور تبادلۂ خیال کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ان کی کامیابیوں کی داستان اور خدمات سے واقف کراتے ہیں۔



Hamid Iqbal Siddiqui performing in a Quiz programme
حامد اقبال صدیقی کی ترتیب و تہذیب میں جاری کوئزٹائم (ممبئی) کے اس شو کا اردومیڈیم کے طلبہ بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار کرتے ہیں اور متمنی ہوتے ہیں کہ ان کے اسکول سے مقابلے میں شریک ہونے والی ٹیم کا وہ حصہ بن سکیں۔ اس پروگرام کی توسیع و انعقاد ملک گیر اور عالمگیر پیمانے پر بھی ہونا چاہیے تاکہ کوئزٹائم کی مانند پروگرام کے انعقاد میں بھی کوئی مسابقت داخل ہوجائے۔ یہ دورِ مسابقت ہے۔ ہمیں یقین و گمان ہے کہ جب ایسے پروگرام کے انعقاد میں مسابقت پیدا ہوجائے گی تو ہم اردو والوں کی کم مائیگی کے دن لد جائیں گے اور فرضی پسماندگی کا دلدّر دور ہو جائے گا؛ کیونکہ ہماری خاکستر میں بہت سی چنگاریاں ہیں جو روشن لو بننا چاہتی ہیں۔

Wednesday, September 12, 2012



 I Regret for the last post about
ASMA-UL-HUSNA
Dr. Rehan Ansari
اپنی سابقہ پوسٹنگ سے متعلق ہمیں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی تھی کہ ایک خدمت کر رہے ہیں!، لیکن احباب کی آرا اور مشوروں نے مجھے خود کمربستہ کردیا کہ تحقیق و جستجو کی جائے۔ اپنی اصلاح بھی مقصود تھی اور ازالۂ غلط فہمی بھی۔ اﷲ نے مدد فرمائی۔ ابواب کھلے۔ خصوصاً محترم ضیاء الرحمٰن انصاری صاحب (ہیڈماسٹر رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیر کالج، بھیونڈی) نے جامع ترمذی کے حوالے سے میری اصلاح سب سے پہلے کی۔ ان کے بعد مولانا امتیاز احمد فلاحی صاحب (اقرا ہاؤس، بھیونڈی) کو میں نے کافی زحمت دی اور انھوں نے متعدد کتب کی ورق گردانی کرکے اس ناچیز پر بڑا احسان کیا اور بڑی معلومات افزا باتیں بتلائیں۔ انھیں کے توسط سے مجھے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے مولانا عبدالوکیل علوی صاحب کی ترتیب و تخریج شدہ کتاب ’’تفہیم الاحادیث‘‘ بھی ملی جس کے صفحات (جلد اوّل) کا عکس میں آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، (ان پر click کر کے انھیں بڑا دیکھ سکتے ہیں)۔ [مطبوعہ: فروری 2009]
مجھے یہ مشورہ بھی ملا کہ اپنی سابقہ پوسٹنگ کو delete کرکے خارج کردوں۔ مگر میں نے بہتر یہ سمجھا کہ دستیاب معلومات کو آپ تک پہنچانا ضروری ہے اس لیے میں اپنی اس پوسٹ کو منسوخ کرنے کا اعلان بھی کرتا ہوں اور اسی کے حوالے سے اپنی تصحیح کررہا ہوں۔ آپ سابقہ پوسٹ بھی پڑھ سکتے ہیں کہ میں کیسی غلط فہمیوں کا حامل رہا ہوں۔ گمان یہ بھی ہے کہ مجھ ایسے کچھ افراد اور بھی ہیں جو مندرج ’’الستار‘‘ کو شاملِ اسماء الحسنیٰ سمجھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے ننانوے ناموں سے متعلق احادیث موجود ہیں۔ ’’تفہیم الاحادیث‘‘ میں تین مختلف طرائق کا بیان ہے، صفحہ 154 کی تصویر ملاحظہ کریں، ان طرائق میں بیان کردہ مختلف اسماء کی جملہ تعداد 128 ہوجاتی ہے، سبب یہ ہے کہ احادیث میں گنتی دی گئی ہے مگر جملہ ناموں کو کسی ایک حدیث میں نہیں دیا گیا ہے۔بعد میں محدثین کی تحقیق سے انھیں مدوّن کیا گیا ہے۔ ان سب کے معانی اور تخریجی حوالے مع تفصیل و تفہیم صفحہ نمبر 159 سے صفحہ نمبر  336تک دی گئی ہے اور اخیر میں ان کے مآخذ کا تذکرہ بھی ہے۔ ان تمام بیان کردہ اسماء الحسنیٰ میں ’’الستار‘‘ شامل نہیں ملا۔











اخیر میں درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں اگر کہیں مزید مستند حوالہ دستیاب ہو تو اس کم علم کے علم میں اضافہ کرنے کا کرم کریں۔
میری اصلاح کے لیے میں اپنے تمام مذکورہ بالا وغیر مذکور احباب و خیرخواہوں کا شکرگذار ہوں۔ جزاکم اﷲ خیراً کثیراً
۔

Saturday, September 8, 2012

Why "As-SATTAR" is missing
from these designs of
ASMA-UL-HUSNA
Dr. Rehan Ansari
تین دہائیوں کا عرصہ بیتا۔ جب سے پرنٹنگ ٹیکنالوجی میں انقلابات داخل ہوتے گئے ہیں متنوع اور نادر ڈیجیٹل ڈیزائنوں میں اور مختلف طرح کے میڈیم پر آیاتِ قرآنی کے طغرے نیز اسماء الحسنیٰ اور نامِ نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بھی فریم اور آویزے Hangers دستیاب ہونے لگے ہیں۔ آپ کا یہ خادم اور بندۂ ناچیز اس دنیا کا بھی سیاح واقع ہوا ہے اس لیے اسماء الحسنیٰ کے فریم یا طغروں کی پہلی دیدِ باصرہ نواز سے ہی ایک غفلت کو محسوس کرتا رہا ہے؛ یعنی اسماء الحسنیٰ کی پرنٹ Print  اور ری پرنٹ (Reprint) کے کاموں میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ایک نام ’’الستار‘‘ ابتدا سے ہی شامل نہیں ملتا! اﷲ کے جملہ ننانوے (99) اسماء الحسنیٰ کی جو فہرست ملا کرتی ہے اس میں ایک چوکھٹے میں ’’المالک الملک‘‘ اور ایک اور چوکھٹے میں ’’ذوالجلال و الاکرام‘‘ لکھا جاتا ہے اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ’’الملک‘‘ Al-Malik  اور ’’المالک‘‘  Al-Maalik دو جدا جدا نام ہیں۔ اس طرح ایک غفلت یہاں بھی ہے۔ دوسری بات کہ ’’ذوالجلال والاکرام‘‘ بھی اسم کی بجائے دعائیہ کلمات صفات  ہیں۔ (اگر میں غلطی کر رہا ہوں تو عرض ہے کہ میری اصلاح فرمائیں۔ اپنی کم علمی کا مجھے ہر گام پر اعتراف ہے). چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :







بارہا کئی جگہوں پر اس جانب برسوں سے یہ ناچیز اشارہ کرتا رہا ہے۔ جن اصحاب سے بھی گفتگو رہی ان میں ہمارے سماج کے بااثر لوگ بھی رہے ہیں مگر سب کی جانب سے افسوس کے اظہار کے علاوہ کوئی اور اقدام نہیں ہوا۔ اب جبکہ عالمی سطح پر رابطہ کے وسائل مہیا ہو چکے ہیں تو ’’اردودریچہ‘‘ کے میڈیم سے میری درخواست جمیع مسلمانانِ عالم سے ہے کہ اس جانب اصلاح فرما کر آنے والی جنریشن تک ہمیں تصحیحِ فہرست کرکے جملہ اسماء الحسنیٰ پہنچانے کا کارِ ثواب انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے۔ شاید آپ سب کے کاموں کے طفیل یہ بندۂ ناچیز بھی شاملِ ثواب ہوجائے۔

Sunday, June 24, 2012



One Question to Balaji Films
Can we call any Bitch with the Name of
Ekta Kapoor or Shobha Kapoor
Since they called a dog in "Kya Super Cool Hain Hum" with the name of
Fakhruddin
EKTA KAPOOR? Ah
ایک سوال
"کیا سوپر کول ہیں ہم " کے کتے کو ایکتا کپور یا شوبھا کپور نے "فخرالدین" کہنا پسند کیا ہے تو اگرکسی "کتیا" کو ہم لوگ ایکتا کپور یا شوبھا کپور کہنا چاہیں تو یہ لوگ  برا تو نہیں مانیں گے؟

Wednesday, June 13, 2012



Mehdi Hassan
THE MODEL GHAZAL SINGER
Dr. Rehan Ansari
پہلے پہل بچپن میں ہارمونیم کی دھونکنی سے پیدا ہونے والے جس آہنگ و آواز سے ہم مانوس ہوئے تھے اور اس سے مدغم جو طربیہ صدا بلند ہوتی تھی وہ نصف صدی کے عرصہ تک منفرد و مخصوص ہی رہی۔ یہ کمال مہدی حسن صاحب کا تھا۔ وہ اردو غزل گائیکی کا معیار تھے۔ آج وہ صاحبِ آواز و انداز ہم سے رخصت ہوگئے۔ اردوغزل کو دلوں میں بسا دینے والی آواز یوں تو بیسویں صدی کے خاتمے سے ہی خاموش ہوچکی تھی مگر اس آواز کے مالک بھی آج ہم سے رخصت ہوچلے۔


Aasman-e-Ghazal ke Do Sitare
Talat Mehmood & Mehdi Hassan
راجستھان میں پیدا ہونے والے مہدی حسن کا راج دلوں اور سماعتوں پر تھا۔ اردو زبان کی چاشنی کا لطف جیسا انھیں سنتے ہوئے ملتا تھا وہ سیکڑوں دوسرے غزل سنگرز کو سننے کے بعد بھی حاصل ہونا ممکن نہیں تھا۔ ان کی ہر پیشکش معراجِ فن کا نمونہ ہوا کرتی تھی۔ شعر، مصرعے اور  الفاظ کے دروبست اپنے پورے معنی و مفہوم کے ساتھ مہدی حسن کی آواز کی لہروں پر درویشانہ و شاہانہ رقصاں ہوجاتے تھے۔
ہم نے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں غزل گائیکی کا کمرشیل دور بھی دیکھا ہے۔ اس دور میں ایک یلغار سی ہوئی تھی۔ اس پر تبصرہ کسی اور وقت کیا جائے گا مگر جن آوازوں نے غزل کو اس کا حقیقی وقار عطا کیا ان میں مہدی حسن، غلام علی اور جگجیت سنگھ کا مثلث فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان اصحاب نے غزلوں کے انتخاب سے لے کر پیشکش تک کبھی معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا اور پھوہڑپن یا مارکیٹ ڈیمانڈ سے اپنے دامن کو داغدار نہیں کیا۔
روایتی غزل گائیکی اور تمام ہندوستانی راگوں کے ساتھ اردوغزل کو آہنگ و انداز دینے کا جو کام مہدی حسن نے گذشتہ نصف صدی میں انجام دیا ہے ان سے قبل کسی دوسرے فنکار نے اتنے استقلال اور عزم و معیار کے ساتھ نہیں انجام دیا۔ حالانکہ مہدی حسن نے بھی پاکستانی فلموں میں گیت و نغمے گائے مگر ان کی انفرادی شناخت صرف اور صرف غزل گائیکی ہی بنی رہی۔ مہدی حسن نے اردو کے مشہور و معروف شعرا کے علاوہ اپنے عہد کے جن شعرا کے کلام کو اپنی آواز سے سجادیا وہ ناقابلِ فراموش اور دائمی شہرت کے حامل ہوگئے۔
مہدی حسن کے گلے سے جب الفاظ آواز کا لبادہ پہن کر برآمد ہوتے تو محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے اصلی معانی کے ساتھ رقصاں و فرحاں ہیں۔
ہم اس خادمِ اردو زباں کے لیے اپنا بھرپور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اﷲ ان کے معاصی کو معاف فرمائے اور ان کی خدماتِ معروفہ کو مزید مقبول کرے۔


The Picture of the last decade
Ab ke hum bichhde to...

Thursday, June 7, 2012



Muslims have to face the music
Dr. Rehan Ansari
ایک ماں کی خواہش کے برخلاف اس کی بیٹی کے حق میں ’محمڈن لا‘ کا سہارا لیتے ہوئے دہلی ہائیکورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے لیے بہانہ بن گیا ہے۔ گویا اس فیصلہ کے ذریعہ دہلی ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان نے مسلمانوں کی پیٹھ پھر سے کھول دی ہے کہ اب جو چاہے لٹھ لے کر دوڑے اور ان پر برسانا شروع کردے۔
اس لڑکی کی ماں مسلم ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی کمسن بیٹی کو ایک برس قبل پھسلا کر لے جانے والے مسلم شخص پر اغوا اور زنا کا معاملہ درج کیا جائے تو اس ماں کی حمایت کرنے اور فیصلہ پر تنقید کی بجائے ہم نے دیکھا کہ نام نہاد قومی میڈیا کے مبصرین نے دہلی ہائیکورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر شرعی عائلی قوانین کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یامظہرالعجائب۔
دہلی ہائیکورٹ نے اس دلیل کو تسلیم کیا کہ خود لڑکی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے زیرِ بحث شوہر کے ساتھ رہے اور ’محمڈن لا‘ کی رو سے ایک لڑکی ’’اگر‘‘ پندرہ برس کی عمر میں ’’بالغ‘‘ ہوجاتی ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رضا سے نکاح کرکے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گذار ے۔ اسی خواہش (مرضی) کی رو سے اس مسلم لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جاتی ہے!... جبکہ ہندوستانی قانون کی رو سے کوئی بھی لڑکی یا لڑکا اٹھارہ برس سے کمسنی میں نابالغ تصور کیا جاتا ہے یعنی (اپنی یا کسی اور کی مرضی سے) شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ ... پھر کورٹ نے لڑکی کی سسرال والوں کو ہدایت دی کہ وہ ہر چھ مہینے پر ’’چائلڈ ویلفیر کمیٹی‘‘ کے سامنے لڑکی کو لے کر حاضر بھی ہوتے رہیں تاوقتیکہ وہ اٹھارہ برس کی نہیں ہوجاتی؛ تاکہ ’’لڑکی کا بچپن‘‘ محفوظ رہے!... کیا آپ کو ہنسی نہیں آئی؟
یہ مختلف فیصلہ کس لیے؟ کس کی بہبود کے لیے؟ کیا اسلام اور مسلم دشمن اس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ ہم نے دیکھا کہ انٹرنیٹ پر اس خبر کے ذیل میں دئیے جانے والے کمینٹ کس قدر گندے خیالات اور گالیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔




ایک دن ہی گذرا ہے کہ ’اِندرجیت ہزرہ‘ Indrajit Hazra نامی انگریزی کالم نویس کی ہرزہ گوئی سامنے آئی۔ ’دی ہندوستان ٹائمز‘ جسے عرفِ عام میں HT لکھا اور بولا جاتا ہے ، کی۷جون کی اشاعت میں اس نے اپنا تضحیک آمیز کمینٹ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’لیکن ملّا کے ’پرنسپلس آف محمڈن لا‘ کی دفعہ 251 ’ہندوستانی قانون‘ سے بالا ہوجاتی ہے؛ جس کے مطابق ہر عاقل و بالغ محمڈن شادی کر سکتا/سکتی ہے‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’بلوغت کے لیے اگر کوئی ثبوت و صراحت نہ ملے تو پندرہ برس کی عمر تسلیم کی جاسکتی ہے!‘‘ ’’اور یہ مذہبی قانون ہے جسے دہلی کی سیکولر ہائیکورٹ نے پندرہ سالہ ’ہندوستانی شہری‘ کے لیے تسلیم کیا ہے‘‘!
اندرجیت ہزرہ درج بالا سطروں میں کس کس کی تضحیک کررہے ہیں یہ بات کوئی بڑی وضاحت نہیں چاہتی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ متعدد تضحیکات میں بیک وقت ہائیکورٹ کی تضحیک بھی کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہزرہ نے ہندو میریج ایکٹ کی اس ضمن میں تعریف کی ہے کہ وہ شادی کے لیے کم سے کم عمر اٹھارہ سال کی تسلیم کرتا ہے جبکہ مسلم قانون ایسا نہیں کرتا!... اور مزید تنقیدیں بھی ہیں جن کا جواب دیا جاسکتا ہے لیکن ہم سرِ دست ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔
ہزرہ سے ہم زیادہ بات کیا کہیں؟ بس اتنا کہنا چاہیں گے کہ ’’ اچھی طرح دیکھ لیں اور اگر آپ کا اپنا گھر (یعنی ہندو قوانین) ہر طرح سے درست ہو تو ہی دوسرے کے گھر کے عیوب پر انگلی اٹھائیں۔ اسلام کو اور اس کے قوانین کو سمجھنا ہو تو پوری دیانتداری سے سمجھیں۔ اپنا دماغ لادنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اس وقت تک اسلامی قوانین کو آپ کے لیے ناقابلِ قبول سمجھتے اور جانتے ہیں جب تک آپ خود مسلمان نہیں ہوجاتے۔ اس طرح واضح ہے کہ ملک کی دوسری مذہبی اقلیتوں کی مانند ہمیں بھی اپنے مذہبی قوانین پر چلنے کی پوری آزادی دستورِ ہند سے ملی ہے اور یہ آزادی ہمارا (سبھی اقلیتوں کا) دستوری حق ہے‘‘۔
دستورِ ہند تو محض آزادی کے دن جتنا پرانا ہے، اسلام ہو، ہندو مذہب ہو یا ارضِ وطن کا دیگر کوئی بھی مذہب، ان کا زمانہ زیادہ قدیم ہے اس لیے ان کے قوانین بھی قدیم تر ہیں۔ کل اگر ہندوستان کے دستور و قانون میں ترمیمات یا حکومتوں میں تبدیلیاں جاری رہیں تو کیا سبھی کے مذہبی قوانین بھی انھی کے مطابق تبدیل ہوا کریں گے؟ ایسا ممکن نہیں ہے... ہمارا (کثیرالمذہبی) سیکولرزم یہی ہے کہ ’جیو اور جینے دو‘۔
ہمیں تو یہ توقع تھی کہ فاضل کالم نگار یا ان جیسے کمنٹیٹرس دہلی ہائیکورٹ کے ججوں کو ہندوستانی قوانین کی دہائی دے کر ان کے فیصلے پر کچھ لکھتے یا کہتے، اس بچی کی ماں کے درد کو سمجھتے اور اس کے ہمدرد بنتے، لڑکی کی آمادگی کی وجوہات کا پتہ چلاتے اور تحقیق کرتے کہ اسے کہیں بلیک میل کرکے تو بیان نہیں دلایا جارہا ہے؟ اس نامعقول شوہر کے خلاف کچھ الفاظ خرچ کرتے جس نے ’’ایک نابالغ ہندوستانی شہری‘‘ کے جسم و نفسیات کے ساتھ گھناونا کھلواڑ کیا ہے۔ مگر، افسوس، ہمیں ایسا کچھ نہیں ملا! ملا تو یہ ملا کہ ’’ملّا‘‘ ملا! ’’محمڈن لا‘‘ ملا! مسلمان ملا جس کی برہنہ پیٹھ پر سب لٹھ لے کر برسانا شروع کرچکے ہیں اور یہ ملّا بیچارہ شرعی تو چھوڑئیے طبی طور سے بھی یہ ثابت کرتا پھرے کہ بلوغت کی عمر کیا ہوتی ہے (اور کم عمری میں بھی کئی لڑکیاں ہمارے وشال دیش میں مائیں بن چکی ہیں) تو وہ ہندوستانی قانون کے خلاف ہی رہے گا!
ہم اخیر میں یہ بھی لکھنا چاہیں گے کہ پورے ملک میں اعدادوشمار اکٹھا کر کے دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں ’’اٹھارہ برس سے کم عمر میں شادیاں‘‘ کہاں رائج ہیں اور دستورِ ہند کی پامالی کہاں کہاں ہورہی ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بہرحال ہمیں ابھی اپنی پیٹھ پر مزید لٹھیں سہنے کے لیے تیار رہنا ہوگا.

Monday, June 4, 2012

Aamir Khan's Half Truth
Dr. Rehan Ansari
۲۷ مئی ۲۰۱۲ء کو ’’ستیہ میوجیتے‘‘ پروگرام میں عامرخان نے جو کچھ پیش کیا یقینا اس میں سچائیاں تھیں؛ لیکن یہ آدھی تصویر تھی۔ اردھ ستیہ تھا۔جسے ہم اپنی زبان میں ’مریضوں کا وکیل‘ ہونا کہہ سکتے ہیں۔ ایک منطق یہ ہے کہ مریضوں کی گنتی میں ڈاکٹر بھی شامل ہو جاتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی گنتی میں مریض نہیں آیا کرتے۔ بالفاظِ دیگر ڈاکٹروں کو بھی ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے اور مریضوں کو بھی ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔کسی کو کم پڑتی ہے کسی کو زیادہ۔
’ستیہ میو جیتے‘ شو میں بھی یہ مشہور مکالمہ دوہرایا گیا کہ ’ڈاکٹر کو لوگ ایشور یا بھگوان کا درجہ دیتے ہیں!‘‘ مگر دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر کو اس کی مبینہ یا مفروضہ دونوں قسم کی (بشری) ’غلطیوں‘ کے لیے مریضوں کا سماج (خصوصاً شہروں میں بسنے والا تعلیم یافتہ یا نیم خواندہ سماج) ہر قسم کی سزا دینے پر اتر آتا ہے۔انھیں جسمانی اور مالی (کبھی جانی بھی) نقصانات پہنچاتاہے۔ بدتمیزیاں کرتا ہے۔ گویا وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کسی ڈاکٹر کا گریبان ہاتھ میں آئے اور وہ اسے عریاں کرکے چھوڑیں۔ایک نہیں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جانی نقصان کی مثال کی خبر زیادہ پرانی نہیں ہے کہ (غالباً کولہا پور کے قریب) ایک ڈاکٹر کے پاس ایک باربر نے اپنا علاج کروایا۔ ڈاکٹر نے اسے دورانِ علاج ایک مرتبہ انجکشن دیا تھا۔ خون کی جانچ کے بعد اسے ’ایچ آئی وی پازیٹیو‘ پایا گیا تو اس نے سمجھا کہ مذکورہ ڈاکٹر نے اسے یہ مرض دیا ہے۔ جب وہ ڈاکٹر اس کے پاس شیونگ کے لیے گیا تو اس باربر نے اس کا گلا کاٹ دیا اور ڈاکٹر وہیں فوت ہوگیا۔
ایمرجنسی کی صورت میں کسی بچے یا مریض و مریضہ کی جان بچانے کی کوششوں میں ناکامی ہاتھ آجائے تو اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور ان کے معاون عملہ پر جذبات کی رو میں بہہ کر حملہ کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟... اسپتالوں یا دواخانوں کا فرنیچر اور دوسرے مہنگے اسٹرکچر اور آلات کو تباہ و برباد کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟... دوا کا معمولی سا بھی ری ایکشن ہو جائے (جو مریض کی اپنی جسمانی کیفیت کی وجہ سے ہوتا ہے) تو ڈاکٹر کو ہر قسم کا کھرا کھوٹا کون سناتا ہے؟
آپ کو علم ہونا چاہیے کہ پورا منظرنامہ سرکار اور عوام کی وجہ تبدیل ہوا ہے۔ جب ۱۹۸۶ء میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ (CPA) کا میڈیکل پروفیشن پر بھی نفاذ و اطلاق ہوا تھا تو وکیلوں کی باچھیں کھل اٹھی تھیں۔ معمولی معمولی بیماریوں کے لیے ڈاکٹروں نے اپنے قانونی دفاع کے لیے پیتھالوجیکل یا ریڈیالوجیکل ٹیسٹ کیے بغیر علاج کرنا نامناسب لگنے لگا تھا۔ انھیں اندیشہ تھا کہ پتہ نہیں کس مرض کی پیچیدگی کی وجہ سے کو سا مریض انھیں کنسلٹنگ روم سے اٹھا کر عدالت کے کمرے تک پہنچا دے۔ یہیں سے ڈاکٹروں نے نہیں بلکہ چالاک، لالچی اور کاروباری طبقہ نے مریضوں کے جسم اور جیب پر اپنے دانت گاڑ دئیے تھے جس کی ترقی یافتہ شکل کو آپ نے ’ستیہ میو جیتے‘ پروگرام میں پیش کیا ہے۔
کارپوریٹ اداروں نے فائیو اسٹار اور سیون اسٹار اسپتالوں کو جنم دیا۔ جو لوٹ کھسوٹ کے سب سے بڑے اڈے ہیں لیکن یہ مالکان بدنام نہیں ہیں بلکہ سامنے جو ڈاکٹر ہیں وہ بدنام ہوجاتے ہیں۔ان اداروں کا سیٹ اپ کرنے والے افراد میں تاجرانہ ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں جو مریضوں کو طرح طرح سے لوٹنے کے حربے آزماتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کا چہرہ سب کے سامنے ہوتا ہے اس لیے بدنام بھی وہی ہوا کرتے ہیں۔ مریضوں نے ان مہنگے اسپتالوں کی فیس کا بوجھ برداشت کرنے سے معذوری ظاہر کی وہیں انھیں ایک دوسرا راستہ ’میڈی کلیم‘ Mediclaim کا سجھایا جاتا ہے۔آخر میڈی کلیم کے کارپوریٹ فیشن کو کس نے رواج دیا ہے، اور اس کی آڑ میں کون کیا کررہا ہے؟
آئی ایم اے (IMA) اور دیگر طبی تنظیموں کا یہ اعتراض بھی بالکل بجا ہے کہ عامرخان کے پروگرام سے یہ غلط پیغام بھی گیا ہے کہ رحم (بچہ دانی) کو کاٹ کر نکالنے کی اکلوتی وجہ اس میں کینسر لاحق ہونا ہے جبکہ متعدد دیگر وجوہات بھی ہیں کہ کسی عورت کی مجموعی صحت کی خرابی کی ذمہ دار رحم میں موجود دیگر تکلیفیں بھی ہوتی ہیں۔ جس ڈاکومینٹری کے ذریعہ عامرخان نے آندھراپردیش کے غریب و ناخواندہ افراد کے گاؤں میں بیشتر عورتوں کی بچہ دانی کے آپریشن کے ذریعہ ان کو بانجھ کرنے کی سازش دکھائی ہے اس میں یہ نہیں بتلایا کہ یہ سازش کسی ڈاکٹر یا طبی ادارے کی تھی یا حکومت کے ’فیملی پلاننگ‘ ڈپارٹمینٹ کی تھی؟ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سازش حکومت کی ہی تھی؛ کسی بھی ڈاکٹر کے جسم میں یہ شیطان نہیں پلتا کہ وہ عورتوں کا رحم کاٹتا پھرے۔
یہ بیان بھی کافی توجہ طلب رہا کہ ڈاکٹر جو برانڈیڈ Branded دوائیں لکھتے ہیں وہ جینرک Generic دواؤں کے مقابلے میں کافی مہنگی ہوتی ہیں، دس گنا تک مہنگی!... جناب عامر خان صاحب آپ یا کوئی اور سپراسٹار جب کسی نیوٹریشنل سپلیمنٹ کے اشتہار میں آتے ہیں یا مثال کے طور پر کیڈبری چاکلیٹ بار کو ہی لیجیے؛ یہ چاکلیٹ اپنی لاگت کے اعتبار سے ۲ روپے فی بار سے زیادہ کا نہیں بنتا ہوگا مگر صارفین کو بیس روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہوتا! آپ جانتے ہی ہیں کیوں ایسا ہوتا ہے۔ جب دواؤں کو بھی برانڈیڈ کیا جاتا ہے تو اس پر سرکاری ٹیکس ایسے لگتے ہیں کہ ایک روپے کی چیز جگہ پر پانچ روپے کی ہو جاتی ہے۔ پھر پروموشن سے لے کر سیل تک اس پر جتنے اخراجات ہوتے ہیں وہ اس کی قیمت میں برابر اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ بس اتنی سی بات کے غبارے میں آپ نے ایسی ہوا بھردی کہ وہ چرچے میں آگئی۔ اگر برانڈیڈ دوائیں مہنگی ہیں تو وہ حکومت کی پالیسیوں اور قوانین کی وجہ سے ہیں۔ ڈاکٹروں کی وجہ سے نہیں۔ آپ کی ریسرچ ٹیم کے کام سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایک ہی پریسکرپشن پر دو کاؤنٹرس سے الگ الگ قیمت میں دوائیں ملیں اور ڈاکٹرس کو کوئی اعتراض نہیں رہا۔
جہاں تک ڈاکٹروں کی انسانیت کی بات ہے تو عامرخان یہ بھی سن لیں کہ جہاں کہیں ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو جس پروفیشنل طبقے کو پہلے دن سے ہی (ضرورت کے آخری دن تک) ’فری سروسیس‘ دیتے ہوئے دیکھا جاتا ہے وہ دوسرا کوئی نہیں صرف ڈاکٹر اور ان کا معاون طبی عملہ ہوتا ہے۔ چاہے کوئی وبا پھیلے یا ارضی و سماوی آفات کا زمانہ ہو، ہر جگہ کے تمام ڈاکٹر اپنی نیند اور آرام سب تج کر متاثرین و مریضوں کا فری علاج اور دوسری خدمات کرتے ہیں۔ پورے ملک میں صرف اساتذہ کا دوسرا طبقہ ملتا ہے جو طلبہ اور ان کے سرپرستوں کے لیے ’فری رہنمائی سروسیس‘ دینے آتا ہے (حالانکہ اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اب کچھ جگہوں پر اساتذہ پروفیشنل انداز سے آنے لگے ہیں)۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ عامرخان یا ان جیسے بڑے نام والے کبھی خود سے، بغیر کسی اپیل کے، بغیر فیس لیے ہوئے سماجی کاموں کے لیے اس انداز میں آگے بڑھتے ہیں جیسے ڈاکٹرس بڑھتے ہیں! یہ تمام پروفیشنلس میں صرف ڈاکٹرس کا خصوصی امتیاز ہے کہ وہ امداد پر آتے ہیں تو بلا معاوضہ اور بلاآرام انتھک یہ کام کرتے ہیں۔
ایک بات اور لکھنے کا جی کرتا ہے کہ عامر خان کے اسپانسرس، اسکرپٹ رائٹر اور وہ خود بھی نام نہاد قومی میڈیا، سسٹم اور حکومت کی پولیں کھولنے والے ’ستیہ‘ کو شاید ہی کبھی دکھانے کی جرأت کرسکیں۔ جیسے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور تعصبات، ان کے حقیقی مسائل کی پیشکش، پولیس کے ذریعہ معصوم نوجوانوں کا انکاؤنٹر، رات کے اندھیرے میں گھروں سے اٹھا کر نامعلوم مقامات پر قید کرکے انھیں ٹارچر کرنا اور ناکردہ گناہوں کو قبول کرنے کے لیے ہر قسم کا دباؤ، وزیر اور اسٹیبلشمینٹ میں شامل افراد کس طرح ٹینڈر کے ذریعہ کماتے ہیں اور غیرمحسوب دولت اکٹھا کرتے ہیں، بلڈرلابی کس طرح کوڑیوں کے مول زمینیں ہتھیاکر ان سے کروڑوں روپے کی فصل کاٹتی ہے؟ وغیرہ... ہمیں پتہ نہیں کیوں یقین سا ہے کہ عامرخان یا ان کے اسکرپٹ رائٹر ان عنوانات پر کوئی ستیہ دکھا نہیں پائیں گے۔ ان میں اتنی ہمت نہیں دکھائی دیتی۔ ہمیں ماضی میں پریہ تینڈولکر کا سیریئل ’رجنی‘ یاد ہے جو عامرخان کے ٹاک شو کی بجائے باقاعدہ ایک کہانی کی مانند دکھایا جاتا تھا۔ دونوں میں مماثلت کافی ہے۔ خود رجنی نے بھی اسٹیبلشمینٹ کے کالے کرتوتوں کو کبھی اجاگر نہیں کیا گیا تھا۔ وہ بھی سماج کو چھوٹے پیمانے پر لوٹنے والوں کے عنوانات سے متعلق ہوا کرتا تھا۔
عامرخان صاحب چھوٹے اسکرین پر جذبات انگیز باتوں کے بعد اپنی نمناک آنکھوں کو آستین کے کناروں سے پونچھنے کا انداز اور جذبات میں ڈوبے ہوئے حاضرین خصوصاً لڑکیوں کے چہرے اسکرین پر دکھانے سے آپ کے شو کی ٹی آر پی تو بڑھ سکتی ہے مگر حقیقت بھی افشا ہوجائے یہ ضروری نہیں ہے۔ خیر، ہمیں انتظار کرکے دیکھنا ہوگا کہ عامر خان اور ان کے اسکرپٹ رائٹر ہمارے دعوے کو جھٹلا سکتے ہیں یا نہیں.

Wednesday, May 23, 2012

Sooraj Achcha Bachcha Hai
Compiled by: Farhan Hanif
Review: Dr. Rehan Ansari
’’سورج اچھا بچہ ہے‘‘ فرحانؔ حنیف کی اس دور میں کسی قدر انوکھی تالیف ہے۔ انوکھی ان معنوں میں کہ آج کل سہولیات کے سبب ہرکوئی اپنا مجموعہ کلام یا مضامین مطبوع کرتا ہے لیکن فرحان حنیف نے اپنی پسند کا مجموعہ ترتیب دیا اور اسے کتابی شکل دے دی۔ اسے پڑھنا واقعی اچھا لگتا ہے۔ رشک ہوتا ہے کہ فرحان جیسا خیال ہمیں برسوں میں کیوں نہیں جاگا؟ ہم نے بھی تو کم نظمیں یا مضامین و کہانیاں نہیں پڑھی ہیں۔ انھی پڑھی ہوئی نظموں یا کہانیوں کو اپنی شخصیت میں جھلکانے کی کوشش کرتے ہوئے پہلے مسیں اور اب ریش حاصل کی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہم موروثی ہی رہے اور فرحان وارثی ثابت ہوئے۔ چھیانوے صفحات پر پھیلے ہوا لڑکپن کے اجالے میں جب ہم نے خود کو غور سے دیکھا تو رشید کوثرؔ فاروقی کا یہ شعر دھم سے یادداشت میں کود پڑا کہ:




سو ورق ہیں البم کے کودکی سے پیری تک
وقت کے مصور  کا    موقلم   نہیں  ٹھہرا
اتنے متغیر اور گوناگوں شعری گلیارے ہیں کہ ان میں کبھی املی کے بوٹے مل جاتے ہیں تو کہیں ٹافیوں کی برسات ہوجاتی ہے۔ سخت گیر دھوپ کا سامنا ہے تو ممتا کے آنچل کی ٹھنڈی چھاؤں بھی میسر ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس پر نظم بہ نظم تبصرہ کرنے کی کوشش یا جرأت یا دونوں اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ ہر کسی کا اپنا بچپن ہوتا ہے اور بچپن پر تبصرہ ناگوار ہے۔ یہ انسان کی معصومیت پر تبصرہ ہوگا۔ وہ معصومیت جو اسے فطرت کی عطا ہوتی ہے۔وہ معصومیت جسے کہیں سے مستعار لیا جاسکتا ہے نہ خریدا جاسکتا ہے۔ وہ معصومیت جو صدفیصد خالص ہوتی ہے۔



Sooraj Achcha Bachcha Hai : Title
پھر یہ بھی گناہ ہوسکتا ہے کہ قاری کو ہم اپنی عینک سونپ دیں کہ بھائی اس سے دیکھو تو ایسا دکھائی دے گا۔ ہمیں یہ بھی ٹھیک نہیں لگتا۔ انھیں پڑھ کر ہر قاری اپنی رائے قائم کرے وہی اس کی کامیابی ہے۔
نظموں پر فنی نقطۂ نظر سے ضرور باتیں کی جاسکتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق بچوں سے ہے نہ بچپن سے۔ یہ آموختہ ہے عمرِ رواں کا۔ پیرایۂ بیاں ہے ایک بالیدہ نظر شخص کا۔ فنی پہلوؤں کے اعتبار سے پورا مجموعہ ہمعصر معیار کی تلاش میں مرتب کیا گیا ہے لیکن روایتی کلاسیکی معیار بھی برقرار نظرآتا ہے۔ لفظوں کے دریچوں سے تہذیبِ نوی جھانکتی ملتی ہے تو بزرگوں کی نصیحتیں اور تربیتیں بھی ڈگمگ قدموں پر نگاہ رکھتی ملتی ہیں۔
نظموں کے تعلق سے جامع طور پر ہم ایک سطر میں یہی کہنا چاہیں گے کہ کلام اور شاعر سبھی معتبر ہیں۔ کئی نام اردو ادب، فلموں اور دیگر میڈیا کے لیے بھی بہت مشہور ہیں۔ ان میں جگن ناتھ آزاد، شمس الرحمن فاروقی، گلزار، محمد علوی، مظفر حنفی، قیصر الجعفری، ندا فاضلی، جاوید اختر، عبدالاحد ساز، ظفر گورکھپوری، سدرشن فاخر، زبیررضوی، صلاح الدین پرویز، افتخارامام صدیقی، ابراہیم اشک، احمدوصی، حامد اقبال صدیقی، عادل اسیر دہلوی، نور جہاں نور وغیرہ شامل ہیں.ان سب نے مل کر آدمی کے بچپن کے ان گوشوں کو آئینہ کر دیا ہے جو بصورت دیگر تحت الشعور میں بوسیدہ ہو جاتے ہیں.
سچ کہوں تو ’’سورج اچھا بچہ ہے‘‘ کو پرکھنے کے لیے میں نے اپنی ڈھائی سالہ بیٹی کے سامنے کچھ نظمیں گا کر پڑھیں تو وہ غرق ہوکر سنتی رہی اور اس آنکھوں میں شرارت اور چہرے کی بشاشت مسلسل افزوں ہوتی رہی۔ یہ اس کتاب کی کامیابی کی دلیل ہے۔
رِدھم اور شرارت کا آمیزہ اس کے صفحات پر موجود الفاظ و اشعار کی زبردست توانائی بنا ہوا ہے۔ پڑھتے پڑھتے بچپن میں بچھڑے ہوئے کتنے ہی الفاظ سے بازملاقات ہوئی۔ مصرعے اور اشعار تو بچپن کی رفتارِقدم کی مانند پھدکتے اچھلتے ملتے ہیں۔ بچوں کے آہنگی اشعار ملتے ہیں جن میں معنی کا پایا جانا عنقا ہوتا ہے تو کچھ نظمیں بھرپور فلسفہ اور پیغام میں بھی ملفوف ملتی ہیں۔
اس مجموعہ میں نظم اپنے کئی فارم میں بیک وقت جلوہ گر ہے۔ مثنوی، مثلث، پابند، آزاد، معریٰ، دوبیتی اور قطعہ، مسدس، ترجیع بند اور تجرباتی وغیرہ۔ اس حیثیت سے بھی ایک طالبعلم کے لیے یہ ملاحظہ کی چیز ہے۔
نغموں اور نظموں سے نکلتی ہوئی روح و ریحاں ہمارے اندرون میں ایسے سرایت ہوئی کہ ہمیں فرحاں کر گئی۔ ہر کسی کا بچپن ایک الف لیلوی داستان کی مانند ہوتا ہے۔ کھٹی میٹھی، تلخ و شیریں۔ اس کا دَرک جس عمر میں ہوتا ہے وہاں صرف یادوں کا جزیرہ آباد ہوتا ہے اور صرف یہ صدا بازگشت کرتی ہے کہ ’’کوئی لوٹا دے مرے بیتے ہوئے دن!‘‘



Farhan Hanif
بہرحال ہم فرحان حنیف کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انھوں نے ضیافتِ طبع کا جو سامان کیا ہے اس سے ہر اردو داں ان کے حق میں دعاگو ہوکر خوان سے اٹھتا ہے۔
شائقین اسے حاصل کرنے کے لیے مکتبہ جامعہ (دہلی/ علیگڑھ/ ممبئی) اور دیگر اداروں کے علاوہ [پوسٹ باکس نمبر 4546، ممبئی سینٹرل پوسٹ آفس، ممبئی 400008 (مہاراشٹر، اِنڈیا)]سے منگا سکتے ہیں ۔نیز فون نمبر +91-9320169397سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔کتاب کی قیمت صرف پچاس روپے (ہندوستانی) ہے۔

Tuesday, May 1, 2012

The Pity State Of Imams & Muazzins
Of Our Mosques

Dr. Rehan Ansari
ہمارے ہندوستانی مسلم معاشرے میں اور خصوصاً اردو شاعری میں بھی مسجد کے امام، ملا اور مؤذنین کو نشانے پر ہی رکھا جاتا رہا ہے۔ انھیں طعن و تشنیع سے نوازا گیا ہے۔ دیروحرم کا مضمون باندھ کرانھیں انسانوں میں تقسیم کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ ان سے سدا بدظنی ہی منسوب کی گئی ہے۔ انھیں ہمیشہ ایک ایسی علامت بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ کریئرسازی کی مسابقت کے دور میں کوئی بھی صلاحیت مند نوجوان ان مناصب پر متمکن ہونے کی خواہش رکھتا ہوا پورے معاشرہ میں نہیں پایا جاتا۔ چند استثنائی صورتوںسے صرفِ نظر کریں تو معمولی سا آسودہ گھرانہ بھی ا پنے بچوں کو مساجد میں ان کاموں کی ترغیب دینا پسند نہیں کرتا۔ انجام کار مساجد میں ان خدمات پر مامور اکثر افراد شمالی ہند کی ریاستوں اور مدارس سے ’امپورٹیڈ‘ ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے شہر بھیونڈی میں ایک باکمال شاعر و حکیم گذرے ہیں ان کا نامِ نامی تھا ’حکیم عبدالحئی ظریفؔ نظامپوری‘ صاحب؛ انھوں نے اردو کے ساتھ ہی ساتھ اپنی زبان کوکنی میں بھی شاعری کی ہے، آپ کا تنقیدی اور حقیقتِ حالات کا غماز ایک شعر یوں ہے کہ:
کنانچی یانچی مشیدی، کنانچی یانچی نماز؟
تمام بانگی مسافر،   امام باہرچے!
جسے اردو میں کسی قدر یوں لکھا جاسکتا ہے کہ:
کہاں کی اِن کی مساجد، کہاں کے اِن کے امام؟
تمام بانگی(مؤذن)  مسافر،   امام باہر کے!
آج جب ہم سوچنے بیٹھتے ہیں تو یہی چور ہمارے دل میں بھی بسیرا کرتا ہے۔مگر اس فیصلہ میں بھی دانشمندی کا پہلو ملتا ہے۔ مساجد کے ذمہ داران یا ٹرسٹیان وغیرہ سمیت اہلِ محلہ و اہالیانِ شہر تک ان خدامانِ دین و ملت کے ساتھ جیسا رویہ روا رکھتے ہیں وہ عبرت انگیز ہوتا ہے، حوصلہ شکن ہوتا ہے۔ آخر کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ان سب باتوں کی؟ آئیے اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں۔
الٰہ العالمین کے حضورمسلمانوں کی صفوف کی رہبری کرنے والے کو یہ اختیار محض جماعت سے نماز کی ادائیگی تک ہی دیا جاتا ہے کہ وہ فرض کی ادائیگی کرکے مناجات پیش کردے۔ دن کی پانچ نمازوں میں یہ وقت زائد از زائد سوا گھنٹے ہوا کرتا ہے۔ جمعہ کے دن دو گھنٹے تک اس کی توسیع کرتے ہیں۔ باقی بچے ہوئے وقت میں امام صاحب کی حیثیت کیا رہتی ہے؟۔ انھی کی مانند مسجد میں حاضری کے وقت کی آگاہی دینے والے خادم یعنی مؤذن کو بھی کیسا مقام ملتا ہے اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ ہم یہاں استثنائی صورتوں سے ایک مرتبہ پھر صرفِ نظر کرتے ہوئے عمومی صورت پر گفتگو کر رہے ہیں۔
مسجد کی تعمیر کئی باتوں اور ضرورتوں کے تحت کی جاتی ہے۔ مسجد اور جائے نماز (مصلیٰ) کے فرق سے بھی ہم سب واقف نہیں ہیں کہ مسجد ایک غیر منقولہ مستقل ملّی ملکیت، عبادت گاہ اور پورا قطعۂ زمین ہے جبکہ جو جگہ یا کمرہ عارضی طور سے بلڈنگوں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور محلّوں میں نماز کے لیے مختص یا وقف کیا جاتا ہے اسے مصلیٰ کہتے ہیں جو منہدم بھی کیا جاسکتا ہے اور منتقل بھی۔ اس کی حیثیت مستقل کی نہیں ہے۔ میں نے بظاہر چند غیرمتعلق سطریں لکھی ہیں لیکن مجھے ان کا تعلق زیرِ بحث مسئلے سے نظر آیا ہے۔ چنانچہ عرض ہے کہ مسجد میں امام یا مؤذن کا انتخاب ایک منتخبہ یا متعینہ ٹرسٹ مطلوبہ شرعی شرائط کے ساتھ کرتا ہے جبکہ مصلیٰ کے لیے عموماً جو شخص پابندی کے ساتھ مصلیٰ کو کھولنے اور بند کرنے کے ساتھ ساتھ نماز کی ادائیگی کروا دیا کرے نیز کم سے کم معاوضہ پر راضی ہو جائے،اسے مقرر کردیا جاتا ہے۔ اکثر ایسے فرد کی تلاش بھی کی جاتی ہے جو اذان و امامت دونوں کاموں کو انجام دے سکے۔ اس کے معاوضے کو دوچند کرنے کے لیے بلڈنگ میں رہائش پذیر افراد اپنے بچوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم ایک معقول معاوضہ پر طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے کھانے پینے کا معاملہ بھی اکثر مل جل کر گھروں سے باری کا ٹفن (ٹگارا) مہیا کروا کے حل کر دیتے ہیں۔ ’اندھا کیا چاہے دو آنکھ‘ کے مصداق انھیں ایسا بنگالی یا بہاری ’ملازم‘ مل ہی جاتا ہے جو کمالِ ہوشیاری کے ساتھ پوری بلڈنگ کو خوش رکھا کرتا ہے۔ ان کے کئی چھوٹے موٹے کام بھی مناسب محنتانہ کے عوض انجام دے کر ’اوورٹائم‘ کما لیتا ہے۔
اب آئیے دوسری جانب۔ مساجد میں امام و مؤذن کو منتخب کرنے کے پیمانے اور شرائط پر عمل کرنے کے بعد جنھیں منتخب کیا جاتا ہے ان کے ساتھ ہمیں کس رویہ کا مشاہدہ ہوتا ہے اور کن مسائل سے ہم انھیں دوچار دیکھتے ہیں۔
اکثر ائمۂ کرام کے متعلق ٹرسٹی حضرات کسی زرخرید غلام کی مانند برتاؤ کرتے ہیں۔ مسجد کا فنڈ تو چندے کے ذریعہ جمع ہوتا ہے مگر ٹرسٹی حضرات محسوس کرتے ہیں گویا امام کی تنخواہ وہ اپنی جیب سے ادا کررہے ہیں اس لیے امام صاحب کو ان کی ہر جا و بے جا بات سننی اور ماننی چاہیے۔ ذرا چوں و چرا کی تو امامت سے برخاست کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ بشری تقاضوں یا کمزوریوں اور مجبوریوں کے سبب جماعت میں ایک یا چند منٹ کی تاخیر ہوجائے تو اس پر ان کا پارہ اتنا چڑھ جاتا ہے کہ تشدد پر بھی اتر آتے ہیں۔ امام کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مسلکی و فروعی معاملات میں امام یا مؤذن جتنی خاموشی  اختیار کرے (علمی طور پرگونگا اور بہرہ بن جائے) اتنااس کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔


جہاں تک تنخواہ کا معاملہ ہے تو وہ ایسی ہوتی ہے کہ دوسرا کوئی پوچھے تو امام صاحب شرم کے مارے بتانا گوارا نہیں کرتے؛ عار محسوس کرتے ہیں یا بات کو دوسری جانب گھما دیتے ہیں۔حالانکہ ٹرسٹی حضرات معیاری تنخواہ دینا چاہیں تو یہ ان کے لیے ممکن بھی ہے اور اس سے ان کی اپنی عزتِ نفس کی حفاظت بھی ہوگی۔
مؤذنین کے ساتھ یہ رویہ مزید افسوسناک ہوتا ہے۔ انھیں مسجد کی خدمت کے نام پر تمام اضافی ذمہ داریاں بھی انجام دینی پڑتی ہیں۔ پانی کا انتظام، جھاڑو اور صاف صفائی، تمام لائٹ پنکھوں اور دیگر الیکٹرک و الیکٹرانی آلات کی دیکھ ریکھ کے ساتھ ہی ساتھ طہارت خانے کی صفائی کی ڈیوٹی بھی انھیں انجام دینی پڑتی ہے اور تنخواہ امام سے کسی قدر کم ہی رکھی جاتی ہے!
کچھ مقامات پر ائمہ و مؤذنین سے ایک کام اور کروایا جاتا ہے کہ محلہ محلہ گھوم کر چندے کی رسیدیں کٹوائیں اور اس طرح مسجد کے غلہ کے لیے رقم جمع کریں۔
اکثر دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ امام و مؤذن کو دنیاوی معاملات اور کاموں خصوصاً کاروبار و دیگر روزگار میں لوگ مشغول اور ترقی کرتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اسے خلافِ تقویٰ خیال کرتے ہیں۔ جس کے سبب امام و مؤذن معاشی و اقتصادی بدحالی کا شکار ملتے ہیں۔ چالاک امام و مؤذن اس کا راستہ دعا تعویذ اور جھاڑپھونک و عملیات میں تلاش کرکے آسودہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسجد کے ٹرسٹیوں اور عوام میں بھی اکثر کا خیال ایسا رہتا ہے کہ امام و مؤذن مسجد کی حدود و رقبہ سے باہر کی دنیا میں رہنے کی قطعی کوشش نہ کریں، عوام سے بھی (بے تکلف) رابطہ میں نہ رہیں، مسجدومحراب کے علاوہ کہیں نشست و برخاست نہ کریں، یہ سارے عمل کسی متقی انسان کے نہیں ہیں! جو امام و مؤذن ان کاموں میں خود کو ملوث کرتا ہے وہ طرح طرح کے الزامات سہتا ہے اور لوگ اس سے بدظن ہوجاتے ہیں۔
جن مساجد میں فل ٹائم امامت اور خدمت کے لیے تقرری کی جاتی ہے ان میں بیشتر کی داستان یوں ہے کہ ’رہنے کا کمرہ‘ کے نام پر ایک تنگ سی نیم روشن کوٹھری کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کی چھت اکثر پہلے منزلے پر جانے والے زینے کی ہوتی ہے اس لیے ترچھی رہتی ہے۔ اس کی چوڑائی زینے کی چوڑائی کے مطابق ہوتی ہے۔ لمبائی اور اونچائی  کا بیان پیمائشوں کو شرماتا ہے۔ ہوا کا گذر صرف دروازہ کھلا رکھنے پر ہی ہو سکتا ہے۔ اب بھلا ایسی ٹھسی ٹھسائی کوٹھری میں روزوشب بسر کرنے والا انسان ذہنی و جسمانی آرام و آسودگی کیسے حاصل کرسکے گا؟ ان کوٹھریوں کا دروازہ بھی مسجد کے آنگن میں کھلا کرتا ہے۔ اس لیے کوئی شادی شدہ امام اور مؤذن اپنے بال بچوں کو تو اس میں آباد کرنے سے رہا۔ اس طرح ٹرسٹی حضرات اور ذمہ داران اس پر ’تجرّد‘  temporary Asceticismتھوپتے ہیں، وقتی رہبانیت، وہ اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ کتنے عرصہ تک صلح کرسکتا ہے؟۔ ٹرسٹی حضرات کو ان خدامان کی آمدورفت کے لیے علیحدہ دروازے والی یا کسی دوسری عمارت میں معقول رہائش کا انتظام کرنا انسانی ہی نہیں دینی ذمہ داری بنتی ہے، جہاں وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ رہ سکیں۔ وگرنہ ایک امام یا مؤذن ہی نہیں اس کی بیوی کی بھی نفسانی خواہشات کو گناہوں کی جانب پھیرنے اور اس خادم کے بال بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت میں خلل انداز ہونے کا الزام ٹرسٹی حضرات کے ہی سر جائے گا۔
محرومی کا شکار ان افراد یعنی ائمہ و مؤذنین کا بھی اس میں کچھ قصور ضرور ہے۔ اچھے برے سبھی اس ناانصافی کا شکار ہیں۔ داستان طویل ہے لیکن مشہور ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں گیہوں میں گھن زیادہ پڑ گئے ہیں۔ ائمہ و مؤذنین اپنے علم یا علمی حیثیت کو بچا کررکھتے ہیں۔ وہ اسے عام کرنے کی جانب سے تغافل برتتے ہیں یا اپنا مزاج سماج سے غیرآمیز رکھتے ہیں۔ لوگوں کے روزانہ کے معاملات و مسائل کے دینی حل کو پیش کرنے میں چوک جاتے ہیں۔ باحوالہ دوٹوک دینی رہنمائی کرنے کی جگہ چہرہ دیکھ کر مصلحت اپناتے ہیں۔ شادی بیاہ اور موت مٹی یا تیوہاروں کے موقع پر بھی وہ اکثر غلط یا غیراسلامی امور کی ادائیگی سے منع نہیں کرتے۔ جمعہ اور عیدین یا رمضان کے ایام میں کچھ دینی خطابات ضرور کیے جاتے ہیں لیکن ان میں مسلکی اور مکتبی تنگ نظری حاوی رہتی ہے۔ دین کو جانے کتنے خانوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مسلم سماج کی باطنی اصلاح کا کام اتنے خلوص و استقلال کے ساتھ انجام نہیں دیا جاتا جتنا ظاہری شناخت کو مخصوص کرنے پر دیا جاتا ہے۔ ساغرؔ خیامی نے اس پر طنز کا جو تیر تاکا ہے وہ یوں ہے کہ:

محشر میں پہنچے شیخ تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
 اس طرح جو مسجد اسلامی معاشرت کی داغ بیل ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے وہ محض فرض نمازوں کی ادائیگی اور نکاح خوانی یا قرآن خوانی سے زیادہ کسی اور استعمال میں خال خال ہی آتی ہے۔ اس میں ہم سبھی کا اجتماعی قصور ہے۔

Thursday, March 1, 2012

Israel Using US Shoulder to
Target Iran
Dr. Rehan Ansari
ایران پر حملہ کرنے کی جتنی کھجلی اسرائیل کو ہو رہی ہے دنیا کے کسی دوسرے ملک کو اس کی کچھ پڑی بھی نظر نہیں آتی۔ برخلاف اسکے ہمارا اندازہ تو یہی کہتا ہے کہ سب اس بات کے متمنی ہیں کہ امریکہ ایران کے اپنے معروضات سننے کے لیے کسی ثالث کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کے لیے راضی ہو جائے۔مگر امریکہ کے اپنے مفادات ہیں اور اسرائیل کے اپنے۔ دونوں کی نیت میں کھوٹ ہے؛ وہ ایران کو مل کر ہڑپنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل نے ہمارے ملک ہندوستان میں اپنے ہی سفارتکار کی گاڑی پر ہونے والے حملہ کو بہانہ کر ایک پھلجھڑی چھوڑ کے ایران کو بدنام کرنے اور دہشت پروری کا ملزم بنانے کی (ناکام) کوشش بھی کی۔ اس کی تحقیقات ہنوز بے نتیجہ ہیں۔
 اسرائیل کا معاملہ اکھا ڑے میں پہلوان کے اس بغلی کردار کی مانند ہوتا ہے جسے مقابل پر دھونس جمانا ہوتا ہے تو وہ پہلوان کی مچھلیاں ٹھونکتا اور دکھلاتا ہے ؛ پہلوان کو چابی بھرتا رہتا ہے۔ شرم اسے چھو کر بھی نہیں گذرتی۔ اسرائیل امریکہ کو اکساتا رہتا ہے اور اسی کا دم بھرتا ہے۔ دراصل امریکہ بھی اسی کا ہم قبیل ہے۔ بلکہ کہا جائے کہ اسرائیل کا استاد ہے تو غلط نہیں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سمیت تمام ایشیائی ممالک پر امریکہ کی دھونس جمانے کے لیے اسرائیل شطرنج کی بساط پر شہ دینے والا مہرہ ہے۔
ایران کا قصور (سچ کہیں تو اس سے حسد کا سبب) یہ ہے کہ وہ ایک مسلم جمہوریہ ہو کر جوہری توانائی کی افزونی اور استعمال کے معاملہ میں ترقی کرتا جارہا ہے؛ یہ گویا ایک خاموش للکار ہے، اس کے پاس ایک جغادری اور نڈر، دانشور، غیرمصلحت پسند، راست گو، مخلص رہنما احمدی نژاد ہے جو دنیا کے سپرپاور کی آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرتا ہے۔ اسے شیر کی زندگی عزیز ہے؛ گیدڑ کی نہیں!... دنیا کے سیاسی مصلحت پسند اسے ’پاگل پن‘ کہتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسے لیڈروں کو ’’ہیرو‘‘ کی دائمی حیثیت حاصل رہی ہے۔ انھیں وقتی مفاد کے لیے قوم کی عزت و ناموس کا سودا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملک ایران کے عوام کو مرحبا کہنے کو جی کرتا ہے یعنی انھیں اپنے رہنما پر مکمل اعتماد بھی ہے اور وہ اس کے ساتھ ہر سرد و گرم میں کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی عزتِ نفس کو جانتے پہچانتے ہیں۔



The Predators and the Oppressed
The history of tomorrow
اسرائیلی روزنامہ ’’ہاریتس‘‘ Haaretz کی ۲۹ فروری کی اشاعت کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم جب ۵ مارچ کو امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات کریں گے تو انھیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ ’’ایران کے لیے ہمارے پاس سبھی آپشن کھلے ہیں‘‘ جیسی مبہم بات سے اب گریز کرتے ہوئے ’’ایران پرفوج کشی کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں اور ایران نے مقررہ حدود کو پار کیا تو اسے نتائج بھگتنے ہوں گے‘‘ جیسی راست دھمکی دیں۔ نیتن یاہو اس گمان میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے اعلان سے ایران کو واقعتاً محسوس ہوگا کہ امریکہ اس پر حملہ کر سکتا ہے۔
اخبارِ مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ یروشلم اور واشنگٹن میں اس بات پر اتفاق ابھی تک نہیں پایا جاتا کہ نیوکلیائی تنصیبات کو بہانہ بنا کر ایران پر حملہ کر دیا جائے۔ دونوں ممالک کے سرکاری اہلکار مارچ کی ملاقات کو کامیاب بنانے اور ہم خیالی پر منتج کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پسِ پردہ اسرائیل امریکہ کے کاندھے پر بندوق رکھنا چاہتا ہے اور اس میٹنگ میں ایک مشترکہ قرارداد پاس کر کے ایران پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ اس کام کے لیے نیتن یاہو امریکی کانگریس اور صدارت کے ریپبلیکن امیدواروں کو بھی استعمال کرکے اوبامہ پر دباؤ ڈالنے کی حرکت کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے قریبی کروڑپتی قمارخانہ کے مالک نے اوبامہ کے قریبی حریف امیدوار کی انتخابی مہم کے لیے کئی ملین ڈالر جھونک دیئے ہیں پھر بھی اوبامہ اور نیتن یاہو کے مابین ایران کے معاملہ میں اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ اوبامہ کے مقابل کی زبان سے ’امریکی اسرائیلی عوامی معاملہ کمیٹی‘ کی میٹنگ میں یہ تک کہلوایا جائے کہ ’’ایرانی خطرہ سے مقابلہ میں اوبامہ کمزور ثابت ہوئے ہیں‘‘۔
اسرائیلی امریکی مذاکرات کے تعلق سے ایک اسرائیلی اہلکار کا یہ تبصرہ معنی خیز ہے کہ ’’ان مذاکرات کی تعداد اہم نہیں ہے بلکہ ان کے نتائج اہم ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہونے والے مذاکرات خارپشتوں (Porcupines) کی ہمبستری کے مانند نکلے ہیں یعنی بہت سست رفتار، احتیاط اور مزید احتیاط!‘‘
نیتن یاہو نے سینہ پھلا کر یہ چال بھی چلی کہ ’’اسرائیل امریکہ کے اندرونی سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیتا اسی لیے امریکہ بھی اس کے داخلی سیاسی معاملات میں دخل نہ دے۔‘‘ بین السطور یہ کہنا مقصد ہے کہ ایران کا معاملہ دونوں کا مشترکہ خارجی معاملہ ہے اس لیے اس میں مل کر دخل دیا جائے!... اگر ہماری جانب سے یہ تبصرہ کیا جائے کہ ایران کا معاملہ اس کا بھی داخلی معاملہ ہے تو کیا بے جا ہوگا؟
اسرائیل کو اس بات کا خطرہ ضرور ہے کہ حملہ کی صورت میں ایران جوابی حملہ کر سکتا ہے مگر اس کی منطق یہ ہے کہ یہ حملے نقصان تو پہنچائیں گے لیکن نیوکلیر ایران کے وجود سے بہتر ہیں!، (یعنی بہر صورت ایران کا گلا گھونٹ دیا جانا چاہیے)۔
جہاں تک صدرِ ایران محمود احمدی نژاد کی بات ہے تو وہ دوٹوک کہتے چلے آئے ہیں کہ جوہری توانائی سے استفادہ کرنا دنیا کے ان ممالک کی طرح اس کا بھی استحقاق ہے جنھیں یہ صلاحیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں امریکہ اور اسرائیل دونوں بھی شامل ہیں۔
ایران پر حملے کے لیے بہانہ تراشی کی وجہ صاف سمجھ میں آتی ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی میان میں تنہا تلوار بنے رہنا چاہتا ہے۔ یہ اس کی بقا کا بھی سوال ہے۔ اس کی بدنیتی صاف نظر آتی ہے کہ وہ خود تونیوکلیائی طاقت بنے لیکن علاقے کے دیگر ممالک اس کے دست نگر رہیں۔
مگر اسرائیل کے بڑے دماغ یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک ایران پر دہشت گردی یا دہشت پروری کے الزامات چپک نہیں پائے ہیں۔ بین الاقوامی نیوکلیائی تفتیشی ایجنسیوں نے بھی ایران کے خلاف اب تک کسی سنگین سبب کی اطلاع نہیں حاصل کی ہے۔ عالمی برادری بلاثبوت ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں کر سکتی۔ اور ثبوت ہنوز عالمِ عدم میں ہیں۔
دوسرا کوئی جواز اور نہیں ہے کہ ایران پر فوج کشی کی جائے۔ دنیائے عرب کی حالیہ تبدیلیوں کو اخباری مبصرین نے Arab Spring یا ’بہارِ عرب‘ کا خوشنما نام دیا تھا جس کے نتیجہ میں عرب سرزمینوں پرعوامی انقلابات نے حکومتوں کو تبدیل کر دیا اور وہاں جمہوری حکومتوں کی زمین تیار ہونے لگی۔ ایران کی پوزیشن اس تناظر میں الگ ہے۔ ایران کا معاملہ اس حیثیت سے مختلف ہے کہ وہاں پہلے ہی عوامی منتخبہ حکومت موجود ہے اور اسے اپنے عوام کی ہی نہیں بین الاقوامی طور پر بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس کی پالیسیاں شفاف، معتدل اور قابلِ قبول ہیں۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسی صورت میں ایران کوئی ترنوالہ نہیں ہے۔ ایران کے اندرونی پر امن ماحول میں عوام میں سے حکومت مخالف کسی (باغی) جتھہ کی تشکیل بھی سرِ دست ناممکنات میں سے ہے۔ سرحدسے باہر بھی ایران کے ہمدرد و بہی خواہ پائے جاتے ہیں جبکہ اسرائیل کے حامی سبھی ممالک کسی نہ کسی منفی جذبے کے پالے پوسے ہیں جو اسرائیل و امریکہ کی بین الاقوامی دہشت گردی و دہشت پروری کو امنِ عالم کا نقیب سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ ابھی تو وقت کا انصاف باقی ہے۔ اصلی دہشت گرد اور دہشت پرور بے نقاب ہو کر رہیں گے۔ کاش ہم سب یہ جلد ہی دیکھ سکتے۔