To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, November 23, 2013

Letter to the Educated Daughter
Dr. Rehan Ansari
میری عزیز بیٹی! سلامت رہو۔ میں تمھیں جان سے عزیز بیٹی بھی لکھ سکتا تھا، لیکن جاننا چاہیے کہ ایک مسلمان کی جانِ عزیز اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہوتی ہے۔ تم اب چھوٹی بچّی نہیں رہی۔ فیصلے لینے کی اہل ہوچکی ہو۔ اس منزل تک اگر ہماری جانب سے تمھاری تعلیم و تربیت میں کوئی خاص کمی رہ گئی ہو تو اس کی نشاندہی کرکے معاف بھی کردینا۔ اب تمھاری اصلاح کا بڑا ذمہ تمھارا ہی ہے؛ جیسا کہ سب کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ بھلے اور برے میں تمیز کے قابل ہوچکی ہو۔ پھر بھی تربیت کا ایک ایسا باب رہ گیا ہے جس کی جانب میں اس خط میں اشارے کررہا ہوں۔ امید ہے تم اسے سنجیدگی کے ساتھ پڑھوگی۔
تمھاری اعلیٰ تعلیم جلد ہی مکمل ہوجائے گی۔ مستقبل کی پربہار اور جاں فزا زندگی چند قدم پر تمھاری منتظر رہے گی۔اس آنے والی زندگی میں برتنے کی باتیں اور چلنے کے کچھ بافیض اصول ہیں۔ ان اصولوں کو دینِ فطرت نے اکمل طور سے پیش بھی کیا ہے اور پوری رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ مگر ہماری دنیا تو نئی دنیا ہے نا، نت نئی بدلتی دنیا، حد سے بیحد مصروف دنیا، جدید تعلیم پانے کی دُھن میں ہمیں فرصت ہی کہاں ملی کبھی کہ اپنے دین کی جانب سوالات لے کر دیکھتے!
بیٹی، پیاری بیٹی، آؤ ذرا پہلے اپنے کیمپس کی سیر کرلیں۔ وہی کیمپس جن میں ہم نے بھی کبھی کئی برس گذارے ہیں اور اب تم ہو وہاں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تاریخ و جغرافیہ خواہ کتنے ہی مختلف ہوں لیکن ان کا اندرونی کیمپس تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ درودیوار اور دریچہ و بام ہوتے ہیں۔ کتب خانے اور باغات ہوتے ہیں۔ رہداریاں اور دالان ہوتے ہیں۔ آڈیٹوریم، کھیلوں کے میدان یا انڈور اسٹیڈیم ہوتے ہیں اور اسی طرح کی دوسری جگہیں۔ پھر ایک اور شئے جو قیام گاہ یا ہوسٹل کہلاتی ہے۔ یہ ایک سحر آگیں ماحول ہوتا ہے۔نئے ذہنوں کی یہاں آبیاری ہوتی ہے۔ ایک طالبعلم لازمی طور پر ان سب سے گذرتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر کئی کہانیاں اور حکایات رقم ہوتی ہیں۔ ان تمام حکایات میں بھی ایک مشترک پہلو ہوتا ہے کہ یہیں پر ہمارے وطنِ عزیز کے برادران و دُختران سے بھی ہمارا ایک طویل سابقہ پڑا کرتا ہے۔ اداروں میں ان کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں وہ لوگ منصوبہ بند بھی ہوتے ہیں اور ہم سے بہت زیادہ سنجیدہ بھی۔ یہ ایک بڑی خوبی ہے ان کی۔ ایک عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ یہ برادران و دخترانِ وطن ہم سے اکثر ہمارے دین سے متعلق (کبھی سنجیدہ اور کبھی تمسخر آمیز) سوالات بھی کیا کرتے ہیں اور ہم لوگ بیشتر کم علمی یا لاعلمی کی بنا پر ان کے شکوک و شبہات کو ہی تقویت نہیں دیتے بلکہ خود بھی شک و شبہ میں مبتلا ہوکر ان سے متاثر ہو جایا کرتے ہیں۔ان کے یہاں لہوو لعب اور رسم و رواج عبادتیں ہیں اور ہمارے یہاں عبادتوں کو رواج دیئے جانے کی تنبیہ۔ اللہ تمھیں اور جملہ مسلمین کو خرافات سے محفوظ رکھے۔
عزیزم، یہ عمر شباب کا وہ دور بھی ہوتا ہے کہ جب دلوں میں ارمانوں کا حسین محل تعمیر ہوتا رہتا ہے۔ ہر نیا دن ایک میلوڈی سناتا ہے۔ اجنبی اچھے لگتے ہیں اور اپنوں سے گریزاں رہنے کی طبیعت ہوتی ہے۔اپنے گلی محلوں اور شہر سے دور بسنے والوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ اجنبیت رفتہ رفتہ زائل ہوکر رفاقت میں ڈھل جاتی ہے۔دوسروں کے گھریلو یا سماجی کلچر کا اختلاف نیاپن محسوس ہوتا ہے۔ جب کوئی اجنبی زیادہ پسندیدہ ہوجاتا ہے تو اپنا سماج اچانک دشمن محسوس ہونے لگتا ہے۔ خوفناک اور کریہہ دشمن۔ذہن کو بغاوت کے ٹینٹیکلس یعنی گیرہ (Tentacles) اپنے شکنجے میں لینے لگتے ہیں۔اور بیشتر لوگ غلطیاں کربیٹھتے ہیں۔ان کے انجاموں کی داستانیں بھی کم نہیں ہیں۔ سب کی سب عمربھر کی چھوٹی یا بڑی ناکامیوں سے عبارت ہیں۔
فراغتِ تعلیم کے بعد کچھ طلبا کیمپس کے اس ماحول سے سرخرو ہوکر لوٹتے ہیں تو کچھ اس کی تہذیب کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ جو لوگ کیمپس کی تہذیب کا شکار ہو جاتے ہیں وہ ہماری (بیچاری) قوم سے خود کو الگ (نئی لنگو میں ’ہٹ کر‘) محسوس کرنے لگتے ہیں اور بجائے اس قوم کی پسماندگی کا علاج و سد باب کرنے کے اسے تنہا چھوڑ کر اپنی ایک الگ دنیا میں مست و مگن ہوجاتے ہیں۔ حق حاصل ہے ہر کسی کو کہ اپنی دنیا اور مستقبل بنائے اور سجائے۔ لیکن یہ نصیحت بھی یاد رکھنا چاہیے کہ:

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن زیرِ گفتگو نفسیات کا حصہ ہونے وجہ سے ضمناً چلایا آیا ہے۔
میری بیٹی، درج بالا اشارہ کردہ انجاموں میں ٹیلیویژن کا بھی بہت بڑا رول ہے۔ ٹیلیویژن نے ڈراموں کو حقیقی دنیا اور حقیقی دنیا کو ڈرامہ ثابت کرنے میں اپنا ایک ایک سیکنڈ مختص کیا ہوا ہے۔ آؤ تمھیں اس کا ایک ایپی سوڈ دکھلاؤں۔ اس ٹی وی بینی نے ہمارے مخلوط ہندوستانی سماجی ڈھانچہ کے سب سے مقدس پہلو یعنی بیاہی زندگی کی اہمیت و تقدس کو جنسی انارکی(Sexual anarchy)  سے ملادیا ہے۔ کسی سیریل کو بھی دیکھیں۔ تمام کردار ایک نفسانی ہیجان اور بے کیفی میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ گھریلو سیریل کے نام پر جو پیشکشیں ہوتی ہیں ان میں گھر کا سب سے بڑا فرد بھی شک کے گھیرے میں رہتا ہے اور اس گھر کا سب سے چھوٹا ممبر بھی۔ وجہیں اکثر صرف دو ہی نظر آئیں گی۔ زر اور زن۔ نہ دین و مذہب کی قیود کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ کسی طرح کی اخلاقیات کا پاس ہوتا ہے۔ کہانیاں تو رذالت کی اس انتہا کو بھی چھوتی ملیں گی کہ پوتا دادی یا دادا کے کردار پر شک کرتا نظر آئے گا!... اور میری بیٹی،... یہ نہ سمجھو کہ یہ بات یا عکس صرف اِڈیٹ باکس کے پردے پر ہی روشنی کے بند ہونے کے بعد مٹ جاتا ہے۔ یہ سارے عکس تو ناظرین کے تحت الشعور کے پردے پر نقش و مرتسم ہوجاتے ہیں۔ یہیں سے وہ تقدس ختم ہوجاتا ہے جو بیاہی یا بے بیاہی زندگی کا اعلیٰ ترین انسانی وصف ہے۔ ہمارے ہندوستانی سماج میں اسی اِڈیٹ باکس اور دوسرے مغرب زدہ میڈیا نے بالغوں میں ایک گھناؤنا سلسلہ بھی جاری کردیا ہے یعنی ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ Live in relationship جسے ’’ہرجائی ہم جائی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بے بیاہی زندگی گذارتے ہوئے دن میں ایک دوسرے سے آزاد رہ سکتے ہیں اور رات ایک ہی کمرے میں بسر کرتے ہیں۔نہ اپنے گھرپر رہنا ہے، نہ گھربسانا ہے نہ ذمہ داریاں اٹھانا ہے۔ یہاں بس عیش ہی ایک عنوان ہوتا ہے۔ یہ سارے خاندانی و سماجی تعلقات کا قاتل ہے۔
 میری عزیز بیٹی، شادی یا بیاہ ایک ادارہ ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے گہوارے میں آدمی انسان بنتا ہے۔ اسی کے گہوارے میں تہذیب و تمدن کے علاوہ انسانی ہمدردی و غمگساری پیدا ہوتی اور پنپتی ہے۔ ہمارے یہاں تو نکاح حکم اور سنتِ پیمبرﷺ ہے۔ نکاح انسان کو سماج سے جوڑتا ہے، خاندانوں سے جوڑتا ہے، اس کی عزت و احترام میں اضافہ کرتا ہے۔اپنی مرضی سے شادی کرلینے والوں کو سماج پسند نہیں کرتا۔ اس کا اثر ان کی پوری زندگی پر پڑا رہتا ہے۔ سماج ظالم نہیں ہے بلکہ یہ انھیں ایک آنریبل سماجی زندگی دینا چاہتا ہے اور خوشیوں میں شریک رہنا اور کرنا چاہتا ہے۔ رفیقِ زندگی کا انتخاب دونوں طرح سے ہوتا آیا ہے یعنی بزرگوں کے ذریعہ بھی اور نجی بھی۔ جو اپنی پسند رکھتے ہیں ان کو حق ہے کہ وہ اس کا باعزت اظہار بھی کریں۔ اس کا تو ہمارے دین میں حکم بھی ہے کہ جسے پیغام بھیجا جائے اس کی بابت خوب اطمینان کرلو۔
پیاری بیٹی، تم تھوڑا سا آنکھیں کشادہ کرکے دیکھوگی تو نظر آجائے گا کہ پوری دنیا کے تمام کاروبار احسن انداز سے جو چل رہے ہیں ان پر نوجوان قابض نہیں ہیں بلکہ جہاندیدہ بزرگ ان کے نگراں ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ نوجوان عجلت پسند اور جذباتی زیادہ ہوتے ہیں جبکہ بزرگ نتائج کے لیے پیش بین اور دوربین ہوتے ہیں۔ ایک دنیا گھر کی بھی ہوتی ہے۔ اس میں چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی۔ بچے بھی ہوتے ہیں اور بزرگ بھی۔ مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ یہاں ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے اپنا اپنا انفرادی مزاج و طبیعت رکھتے ہیں۔ پسند و ناپسند رکھتے ہیں۔ تمھیں شاید پتہ ہو کہ بیاہ کے بعد لڑکی نے ایک گھر یعنی اپنے شوہر کے گھر سے رشتے استوار کرلیے تو اس کے لیے دنیا میں ہی جنت مثال گھر مل جاتا ہے اور اسی واسطے سے جنت میں گھر بن جاتا ہے۔ اس گھر میں قدم رکھنے سے قبل یہ پورا گھر اجنبی ہوتا ہے۔ اس میں بسنے والوں کی طبیعتیں اجنبی ہوتی ہیں۔ پہلے سے قریبی رشتہ داریاں ہوں تب بھی دیواروں کے اندر کی دنیا کی مکمل خبر کسی کو کسی کی نہیں ہوا کرتی۔ ایسے ماحول میں کئی مسائل پیدا ہوجایا کرتے ہیں۔ کبھی تصورات کا محل پاش پاش بھی ہوجاتا ہے۔ کئی تہذیبی فرق بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جس دلہن نے اپنی طبیعت میں انکساری اور تواضع رکھا وہ کامیاب ہوجاتی ہے۔ نئے گھر کو اپنا اصلی گھر سمجھا توگھر کے اندر اٹھنے والی طرح طرح کی لہریں محض ابتدائی دو سے تین برسوں میں کسی اور جانب نکل جاتی ہیں۔ یہ مدوجزر سب کی زندگیوں میں آتے ہیں۔ اس لیے ہر لڑکی کو ان کے لیے ذہنی و نفسیاتی طور سے تیار رہنا چاہیے۔اور اس درمیان اپنے نئے گھر کے افراد کے ساتھ رشتوں کو حسنِ تدبیر سے استوار کر لینا چاہیے۔
عزیزی بیٹی، ایک بڑا سماجی مسئلہ ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے مناسب رشتوں اور جوڑ کی تلاش کا ابھر آیا ہے۔جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے وہ اب بلا تخصیص ہر ذہین بچہ یا بچی حاصل کرتی ہے۔ کوئی صدی نصف صدی قبل ایسا منظر نہیں تھا۔ سماجی نابرابری کا دور دورہ تھا۔ امیری غریبی کے علاوہ خاندان و برادری سے متعلق بھی باتیں رائج تھیں۔ ہمارے دین میں جو ’مسئلۂ کفو‘ یعنی ’ہمسری و برابری کا ‘ہے اسے بھی ہمارے اُس وقت کے علما و اکابر نے کافی الجھا کر پیش کیا اور محض برادری یا خاندانی کفو کی میرٹ پر زیادہ زور دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی خاندان و برادری کی پڑھی لکھی لڑکی کا نکاح اس برادری کے انپڑھ یا اُجڈ و گنوار لڑکے سے کردیا گیا یا پڑھے لکھے لڑکے کو اپنی برادری کی غیرتعلیمیافتہ یا سرپھری لڑکی کے ساتھ نباہ کے لیے مجبور کردیا گیا۔ جبکہ نبی کریمﷺ نے نکاح کے لیے جو کفو بیان کیا ہے اس میں ’’مال، کمال، جمال اور دینداری‘‘ کو بتلایا ہے۔ اس میں بھی اوّلیت اور سب سے زیادہ بابرکت دینداری کو بتلایا ہے۔ جو ظاہری نہ ہو۔ کچھ افراد میں اس کفو کی دو تین خصوصیات یکجا ہوتی ہیں تو کچھ میں چاروں جمع ہوجاتی ہیں۔ لیکن ایک خصوصیت کے حامل افراد کو ہم کفو کہہ سکتے ہیں۔ اس جانب دورِ حاضر کے بیشتر اور جید علما، جن پر اعتبار کیا جاتا ہے اورجن سے دینی امور میں رہنمائیاں لی جاتی ہیں، نے اب مسئلہ کفو کو سلجھانا شروع کردیا ہے اور مجھے بھی نجی ملاقاتوں میں ان سے ایسی آرا سے مستفیض ہونے کا موقع ملا ہے۔ اس میں برادری اور خاندانی قیود فسادات کا سبب بن جاتی ہیں۔ میں نے اس باب میں مضامین بھی پڑھے ہیں۔ چونکہ ہم لوگ ابھی تک تنگ نظری کا شکار ہیں اسی سبب معاشرے کی اعلیٰ تعلیمیافتہ لڑکیوں کے لیے رشتوں کا مسئلہ کافی گمبھیر ہو چلا ہے۔تھوڑا سا بیش و کم دیکھ کر اور برادری کے گھیروں کو توڑ کر اس طرف  دھیان دیا جائے اور پورا سماج کسی قدر نرم دلی کا مظاہرہ کرے تو اس مسئلہ کو حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ لیکن ابھی ہمارے سماج میں ایسی وسیع القلبی نہیں آئی ہے۔
عزیز بیٹی، خط کو ختم کرنے سے قبل میں تمھیں یہ نصیحت ضرور کروں گا کہ اپنی طبیعت میں انکساری اور تواضع کے خواص پیدا کرلو اور خوداحتسابی کرتے رہنے کے ساتھ تکبر سے ہمیشہ پرہیز کرنا۔ انشااﷲ راستی و پاکبازی کے ساتھ زندگی بسر ہونے کا پورا امکان ہوگا۔ اس دعا کے ساتھ میں تم سے وداع لیتا ہوں کہ ’’اﷲ تعالیٰ تمہاری زندگی کو خیر وبرکات سے سنوارا رکھے اور آخرت میں اس زندگی کو وسیلۂ نجات بنائے‘‘۔ (آمین)
تمھارے ابّو


Sunday, October 13, 2013


FAIZ NASTALIQ
Please click on the photos to enlarge and read




Wednesday, October 9, 2013



فیض نستعلیق سے متعلق مزید معلومات کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں اور مضمون ملاحظہ کریں
http://urdu-dareecha.blogspot.in/2011/03/faiz-lahori-nastaliq-unicode-font-gift.html

Thursday, June 20, 2013

Mushayere, Street Cricket or other like games and Muslim Youngsters
Dr. Rehan Ansari
ہمارا مسلم سماج کچھ عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہوچلا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ انھیں امراض ماننے سے انکار بھی کرتے ہیں۔ بقول ’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘۔ ان سماجی بیماریوں کی واضح علامات ہمارے نوجوانوں میں اور ان کی روزمرہ حرکات میں نظر آتی ہیں۔ان تمام حرکات کا نام ہے ’’مزہ، تفریح، اِنجوائمنٹ، ٹائم پاس، وغیرہ‘‘!
دیکھا جائے تو ان تمہیدی سطور میں ہی ہماری بات بھی مکمل ہو جاتی ہے لیکن ضروری ہے کہ عمومی ترسیل کے لیے کچھ باتیں مزید کھل کر کی جائیں۔
ان تمام بیماریوں یا ان کے جراثیم کو پھیلانے میں جو افراد چوبیسوں گھنٹے منہمک ہیں وہ چالاک قسم کے خودساختہ سوشل ورکر ان کے مقامی یا محلے دار آقا ہیں۔ ہر جگہ کے ’مقامی آقا‘ کو اب لوگ ’’صاحب (یا، بھائی)‘‘ جیسے منفرد اور ’بامعنی‘ لقب سے پکارنے لگے ہیں۔ اور مذکورہ بالا عوامی رابطہ کار سوشل ورکر ان کا ’’خاص‘‘ ہوتا ہے! یہ ’خاص‘ کبھی کبھی کئی افراد پر مشتمل ایک گروہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ ’صاحب‘ بھی کسی قومی یا علاقائی پارٹی سے متعلق کوئی شخص ہوا کرتا ہے۔
جو بیماریاں پھیلائی جارہی ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے ’’مشاعرہ (خصوصاً آل انڈیا)، کرکٹ (گلی کرکٹ اور اَنڈرآرم کرکٹ)، ٹینس بال ٹورنامنٹی کرکٹ، والی بال، فٹ بال، کبڈی، کیرم، (سبھی کھیل مقامی چینل پر ڈائرکٹ ریلے کے ساتھ، تاکہ حصہ لینے والے مزید سیلیبریٹک نشے میں مبتلا رہیں)، ان میں موٹربائک وغیرہ کے انعامات، ڈھابوں پر دیررات کی ڈنر پارٹیاں، تفریحی مقامات کی گروہی سیر یا پکنک وغیرہ‘‘۔
ہمارے ان نوجوانوں کی اکثریت پتہ نہیں
کس افیمی دوا کے زیرِ اثر ہے کہ اسے کوئی اچھی یا نصیحت آموز بات اب لطیفہ سے بھی گئی گذری سی کوئی چیز محسوس ہونے لگی ہے؛ جسے ایک کان سے سننا تو درکنار اس پر کان دھرنے کی بھی فرصت نہیں ہے اور جیسے وہ اس ’’ناوقت شور‘‘ پر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ ان کی مخفی اور فائدہ بخش صلاحیتوں  کا استعمال یہ صاحب لوگ اور ان کے خاص کبھی نہیں کرتے ( بلکہ ان سے وہ واقف بھی نہیں ہوتے!)؛ البتہ اپنی ڈائرکشن پر ان کرداروں کو سماجی اسٹیج پر کچھ اس طرح بھانڈ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ غیرمسلم سماج کے نزدیک ہم سب اپنے ملک و قوم کے لیے ایک لائیبلیٹی بن چکے ہیں!
شہر کا کوئی نکڑ یا چوراہا ایسا نہیں ملتا کہ جہاں ہفتے یا مہینے بھر میں کسی کرکٹ، کبڈی یا اسی قبیل کے مقابلوں اور تفریحات کے رنگین بینروں سے اَٹا نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان بینروں پر بیک گراؤنڈ میں پارٹی فلیگ کے رنگوں کے ساتھ ’صاحب‘، ’صاحب کے (نیشنل یا اسٹیٹ لیول) صاحب یا میڈم‘ اور ان کے حواریوں مواریوں کی ہنستی مسکراتی تصویریں ہوتی ہیں۔ انعامی موٹربائک کو بھی خوب نمایاں کرکے دکھایا جاتا ہے۔ یہ بھی بس ’اپنے محلوّں کی بات ہے!‘
ٹورنامنٹ اور مشاعرے تو آئے دن کا روگ بن چکے ہیں۔ ان ٹورنامنٹوں میں بھی کسی اعلیٰ صلاحیت اور پیمانے سے نہیں بلکہ محض ’تفریح یا مزہ‘ سے سروکار ہوتا ہے۔ انعام وِنعام تو بس شکست خوردہ ٹیم کے خلاف چھیڑخانی کے ہتھیار ہیں۔ اور مشاعرے... ارے توبہ!... زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا... ان مشاعروں کو اب اس اِملے کے ساتھ لکھنا چاہیے ’’متشاعرے‘‘... یہی صحیح ہے۔ کیوں کہ اس میں شعرگوئی کے علاوہ شاعری کے نام پر سب کچھ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بھانڈگیری بھی۔ لپ اسٹک، ساڑی اور خوش لباسی کے ساتھ فقرے بھی اس کا لازمی جز بن چکے ہیں۔خوب پیسے لٹائے جاتے ہیں۔ اردو کا مذاق بنادیا جاتا ہے۔
ان دانوں کو چگنے کے بعد ہماری قوم کے چوزے ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے رنگ منچ جمنے لگتا ہے۔ ہر طرح کے تماشے ہونے لگتے ہیں۔ جو اپنے گھروں میں میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ سپلائی کیا ہوا پانی منہ بنا کر پیتے ہیں انھیں بِسلیری اور دوسرے منرل واٹر کی بوتلیں بغل میں دبائے گھومتے دیکھا جاتا ہے۔ چائے کافی اور ٹھنڈا تو بس ایک آواز پر ہوٹل کا ’باہروالا‘ دوڑ کر خدمت میں پیش کردیتا ہے۔ کھانا وانا تو کسی بھی مشہور ہوٹل میں اتفاقِ رائے سے کھایا  جاسکتا ہے یا پھر اپنی جگہ پیک کرکے منگوایا جاسکتا ہے۔یوں کچھ دنوں کی عیاشی کا سامان تو بہم ہو جاتا ہے۔ ’صاحب‘ کو تو بس کچھ مہینوں بعد ان چوزوں سے کام لینا ہے اور اتنا سستا سودا کرنے میں کسی طرح کی آناکانی کیسی؟
شہر کے شریف بیچارے اپنی بے بسی اور نوجوانوں کی سرکشی پر اپنا ماتھا پیٹتے رہتے ہیں مگر اپنے نوجوان اس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے تک نہیں۔نوجوانوں کے سامنے مستقبل کی کوئی تصویر ہوتی ہے نہ تصور۔ انھیں تو بس اپنے صاحب کی خوشنودی عزیز ہوتی ہے جو مالدار ہوتا ہے اور کسی قدر پولیسیا رسوخ بھی رکھتا ہے۔ اور یہ صاحب اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مستقبل کے وارڈ یا اسمبلی الیکشن وغیرہ پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ اس میں وہ خود یا بدنصیبی سے ریزرویشن ہوگیا تو اپنی خانہ نشین اہلیہ کو یا بڑی توڑجوڑ کرنے کے لیے کودنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کا دوہرا فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے۔ پہلے سے موجود ڈھیروں دولت میں کچھ اضافہ اور کچھ خفیہ و غیرقانونی امور یا مدات میں کارپوریشن کے دفاتر کو نرم کرنا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ کام کچھ مخصوص راہوں پر چل کر ہی انجام دئیے جاسکتے ہیں اس لیے صاحب کو یہ سب بکھان پھیلانا ہی پڑتا ہے۔ اس میں وہ بظاہر ناکام رہ کر بھی کامیاب رہتا ہے۔ مقابل والے صاحب پر رعب بھی بنتا ہے اور سامنے خواہ کچھ بھی دکھائی دیں لیکن درپردہ ’’ہم سب بھائی بھائی‘‘ کا پیغام بھی پہنچ جاتا ہے۔
ہمیں صدمہ اس بات کا رہتا ہے کہ ان چالوں اور جالوں میں ہمارے اپنے بھائی برادر اور جھونپڑ پٹیوں کی پردہ دار خواتین تک پھنس جاتی ہیں۔ شہر کے محلّوں کے استعمال شدہ نوجوان انتخابات کے بعد کسی شماروقطار میں نہیں ملتے۔ صاحب کے گھر کی سیڑھیاں بھی اونچی ہو جاتی ہیں۔ ان پر سب کے قدم نہیں پڑ سکتے۔ آپ کے علاقے کے انتظامی مسائل تو ان کے لیے دودھ دینے والی گائے کی مانند ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ حل ہوجائیں تو ظاہر سی بات ہے کہ آمدنی کا یہ سوتا سوکھ جائے گا۔ اس کی بھنک تک وارڈ کے لوگوں کو نہیں ملتی کہ وہ ان کے مستقل مسائل سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چھوٹے موٹے احتجاج یا مورچے کی وجہ سے ایک آدھ کام کردینا محلے میں مزید دھاک بٹھانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے صاحب اس مزاج کا بڑا خیال رکھا کرتے ہیں۔ خیر، یہ داستان کسی ایک محلے، کسی ایک وارڈ، کسی ایک شہر یا کسی ایک علاقے کی نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں یہ وبا تمام مسلم اکثریتی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے اور ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور وقت کا استحصال کرنے والے الگ الگ روپ میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ہمیں ان سے شکایت کم ہے مگر اپنے نوجوانوں سے زیادہ ہے کہ وہ اس بات کو پہچانتے ہیں... صاحب کو پہچانتے ہیں... خاص آدمی کو پہچانتے ہیں... اور نہ ہی خود کو پہچانتے ہیں۔ وہ کسی افیمی نشے کا شکار ہیں۔ کاش وہ جلد بیدار ہوجائیں۔ ان مشاعروں، مقابلوں اور رتجگوں کے مرض سے انھیں جلد چھٹکارا حاصل ہوجائے۔شاعرِ مشرق نے کیا خوب کہا تھا کہ:

پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا توبن!

Thursday, March 28, 2013

Beware of the Faceless Blasphemers
on FaceBook and Internet
Don't get Deceived

Dr. Rehan Ansari
بھیونڈی کے ہندو اور مسلم شہریوں کو ایک پُرامن احتجاج کے لیے آج (۲۸جنوری ۲۰۱۳؁ء کو) شہر کا ہر ’’کاروباربند‘‘ میں شانہ بشانہ شامل رہنے پر مبارکباد۔ پولیس کا تحمل اور بندوبست بھی قابلِ تعریف رہا۔ درمیان میں طرح طرح کی افواہوں کے باوجود لوگوں نے ان افواہوں کی تصدیق کا عمل جاری رکھا۔ اس کے لیے یقینا موبائل فون ٹیکنالوجی نے بڑا کردار ادا کیا۔ یہ دانشمندی رہی اور ’’کوّا کان لے گیا‘‘ پھیلانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ بند تقریباً مکمل اور کامیاب رہا۔
شہر بھیونڈی کے عوام یوں بھی ۱۹۹۲؁ء سے امن و امان کی پرورش کے لیے ملک و بیرونِ ملک میں مثال بنے ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون اور امن کی برقراری میں میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔ حالانکہ قریب کے دنوں میں کچھ شرپسندوں نے مذہبی بنیادوں پر فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے کی دو ایک مرتبہ منظم کوششیں بھی کی تھی لیکن دونوں فرقوں اور خصوصاً چھیڑے جانے والے مسلمانوں نے ان کی سازشوں کو بڑی حکمت کے ساتھ ناکام بنا دیا تھا۔ ہم اس اقدام کے لیے عوام کے ساتھ ہی بھیونڈی مغرب و مشرق کے اراکینِ اسمبلی کی بھی سراہنا ضرور کریں گے جو ہر موقع پر ایک ساتھ رہنے کے لیے آگے آئے اور اپنے اپنے علاقوں میں قیامِ امن کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔علما اور ائمہ نے بھی پولیس کے ساتھ ہر موقع پر تعاون کیا ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہاں کے عوام نے ان سب کوششوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ چند جذباتی نوجوانوں کی ناپسندیدہ حرکات کو بھی قابو میں کرنے کے لیے سب ایک ساتھ ہوجایا کرتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔
یہاں فکر کا پہلو یہ ہے کہ ایسا ماحول اچانک کیسے پیدا ہوجاتا ہے۔ آج کے ماحول میں بنیادی عنصر ’خانۂ کعبہ کی تصویر میں انٹرنیٹ (فیس بک) پر اس کی بے حرمتی کا اندازِ پیشکش‘ ہے۔ کسی بھی مسلمان کے دل کو چیر کر رکھنے اور دماغ کو کھولانے کے لیے ان مجرموں کا سب سے کارگر اور آسان ہتھیار یہی ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد کو چھیڑ دیا جائے۔ خانۂ کعبہ اور مقاماتِ مقدسہ کی تصاویر یا رسولِ اکرمؐ کی شانِ اقدس میں ابلیسانہ حرکات کر دی جائیں اور اپنا یہ ’’میاں بھائی‘‘ کیسے تلملاتا ہے اس کا تماشا دیکھتے رہیے، قانون اور قانون والوں کے ہاتھ میں کیسے پھنستا ہے اس کا مزہ لیجیے... اور گاہے گاہے یہ کام کیا کیجیے!
میاں بھائی تذبذب میں رہتا ہے کہ کس سے لڑے؟... اصلی دشمن سامنے ہوتا نہیں!... طبیعت میں قرار اور صبر آتا نہیں۔ جذبۂ ایمانی جوش مارتا رہتا ہے۔ اسی میں کچھ بھائی ہوش کھوبیٹھتے ہیں اور ایسا کام کرجاتے ہیں جس پر بعد میں طویل عرصہ تک پچھتاوا بھی ہوتا ہے؛ لیکن اس اطمینان کے ساتھ کہ ’ہم نے اپنے دین و عقیدہ کے تحفظ و تقدس لیے کچھ توکیا!۔ قابلِ تحسین و تکریم ہے یہ جذبہ۔ لیکن کیا صرف یہی ایک کام احتجاج میں کیا جاسکتا ہے کہ خود کو اور اپنے برادران کو نقصان میں ڈال دیا جائے۔ بھائی! اصل دشمن تو نظر نہیں آیا۔ ہم لڑ گئے اپنے برادرانِ وطن سے۔ جن کے ساتھ ہمیں نسلاً در نسل رہنا ہے۔ کیا اس جذبے کے ساتھ کوئی پُرامن بقا ممکن ہے؟ تو آخر حکمتِ عملی تبدیل کرنے یا نئی تلاش کرنے کی ذمہ داری اور اسے اپنانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
انٹرنیٹ ابلیسانہ طبیعتوں کے لیے سب سے کارگر ہتھیار بنا ہوا ہے۔ مفت تماشا کرنے اور دیکھنے کا۔ جہاں تک ہمارے مذہب، مقاماتِ مقدسہ، شانِ اقدسؐ، امہاتُ المؤمناتؓ نیز دیگر پیغمبرانِ اسلامؑ کا تعلق ہے ان پر رکیک سے رکیک ترین حملے اور ان کی شان میں گستاخیاں، ان کے تقدس کی پامالیاں یہ بے چہرہ دشمن کسی دور میں بند رکھے ہیں نہ بند کریں گے۔ ارے، جب آپؐ کی حیاتِ مقدسہ میں آپؐ پر کوڑے پھینکنا، جسمِ اطہر پر اونٹ کی اوجھڑی کا بوجھ رکھ دینا، دشنام طرازیاں اور سنگ باریاں کرنا کیا جاچکا ہے تو ہم یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ ان کے شیطانی کرتوت اس دور میں رک جائیں گے؟ مگر جس تحمل اور ردّعمل کا مظاہرہ آپؐ نے کیا تھا اور ان کے لیے دعائے ہدایت کی تھی ہمیں اسی کی اتباع اوّل لازم ہے۔جمہوری طریقۂ احتجاج جو اہالیانِ بھیونڈی شہر نے آج بے اشتعال کیا ہے اس کے لیے ہم جملہ شہریان کو مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ برادرانِ وطن اور پولیس انتظامیہ ہمارے مذہبی جذبات کو صحیح پرسپیکٹیو میں سمجھتے ہوئے آئندہ بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی تعاون فرمائیں گے۔ ہمیں یقینا شدید غم و صدمہ ہے کہ آئے دن انٹرنیٹ پر ہمارے ہی نہیں تمام انسانوں کے جملہ مذہبی جذبات و اعتقادات سے کھلواڑ کرنے اور چھیڑنے کی حرکتیں اور سازشیں مسلسل جاری ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ کرائم برانچ کا سائبرسیل ایسے افراد کو تلاش کرکے ان کی قبیح حرکات کا قلع قمع کرے گا۔ یہ کام آسان ہے نہ مکمل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ عمل یقینا لازم ہے کہ ہمیں اپنے جذبات و احساسات کو قابو میں رکھ کر صحیح حکمتِ عملی کے ساتھ احتجاج کرنا چاہیے، جیساکہ آج کیا گیا۔

Sunday, March 17, 2013


"Ahwal-e-Shafat"
A Concise Encyclopedia of Urdu Journalism
Compiled by Suhel Anjum
An Introduction: Dr. Rehan Ansari
سہیل انجم لکھتے ہیں: ’’صحافت کسی بھی واقعہ کو نشر کرنا یا دوسروں تک پہنچانا ہے اور اس انداز میں پہنچانا ہے کہ اسے لوگ سمجھ سکیں‘‘۔
اب صحافت کی اصطلاح ’’میڈیا‘‘ میں ضم ہو چکی ہے۔ لیکن صحافت کا عمل اور کینوس وسیع تر ہوا ہے۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا دونوں کی پیشکش میں صحافت کو ہی اعتبار حاصل ہے۔پرنٹ میڈیا بھی رنگدار ہوچکا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں بھی انٹرنیٹ پر تعلیم یافتہ انسانی گروہ تحریری مواد کو فوقیت دیتا ہے۔صرف توثیقِ خبر کے لیے ویڈیو یا تصویری میڈیا کی جانب رجوع ہوتا ہے۔ ویسے تحریری و تصویری میڈیا بھی ایک دوسرے میں بالکل پیوست اور اب ایک ہی وجود سمجھے جاتے ہیں۔دنیا کی ہرزبان کے میڈیا نے ترقیات کی جانب پیش قدمی کی ہے اور اردو زبان بھی اس میں شامل ہے۔
اردو زبان برصغیر ہندوپاک میں زیادہ اور پوری دنیا میں بیشتر ممالک میں اب اپنا وجود اور ترویج رکھتی ہے۔ اس کا میڈیا بھی اپنے تنوع اور پیشکش کے لحاظ سے معاصر زبانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ اس کا ثبوت وہ اعدادوشمار ہیں جو اردو پرنٹ میڈیا کے تعلق سے رجسٹریشن آف نیوزپیپرس اِن انڈیا (RNI) کی سالانہ رپورٹ سے آشکارا ہے کہ ہندوستان میں اردو اخبارات تعداد کے لحاظ سے ہندی اور انگریزی کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔یقینا ابھی اردو والوں کی نئی جنریشن کو اردو تعلق سے سنجیدہ نہیں دیکھا جا رہا ہے مگر جب ہم اپنی زبان کو باقی رکھنے میں دلچسپی لیں گے اور اردو کے اخبارات اور رسائل کو انٹرنیٹ پر یا گھر پر منگوا کر دیکھتے رہیں گے تو نئی جنریشن کو بھی ترغیب مل سکتی ہے۔ اسی عمل میں اپنی تہذیبی اور اخلاقی شناخت بھی پوشیدہ ہے۔

The Cover Page of the Book and Author
’احوالِ صحافت‘ ایک ایسی کتاب ہے جس نے درجِ بالا تاثرات ہی نہیں ابھارے بلکہ ہماری برسوں کی تشنگی کی تسکین کا سامان ثابت ہوئی۔ سہیل انجم (دہلی) نے بظاہر ایک کتاب لکھی ہے مگر اصلاً یہ اردوصحافت کا ایک مختصر انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس میں طلبائے صحافت کے ذہنوں میں اٹھنے والے بیشتر سوالات کا جواب اجمالاً موجود ہے۔ اس میں تاریخِ اردوصحافت، ہمارے چند اسلافِ صحافت کے مختصر حالات مع ان کی بیباک منتخبہ تحریروں کے نمونے اور تحریکیں، تحریکِ آزادی کی ابتدا سے آزادی تک حریت پسندی و جرأت خیزی کے ساتھ انگریزوں سے مقابلہ آرائی، قربانیاں اور بیباکیاںمذکور ہیں۔ طلباء کے لیے صحافت کے رموزونکات کے ساتھ ہی دورِ جدید میں اردوصحافت کے تقاضے و رہنمائیاں، اردو صحافت کی کارپوریٹ سیکٹر سے رشتہ داری اور اس کے اثراتِ نیک و بد باب وار درج ہیں۔جو نتیجہ خیز ہی نہیں بلکہ کہیں باعثا ہمت ہیں تو کہیں باعثِ عبرت بھی ہیں۔میڈیا کا معاشرہ سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ اور یہ میڈیا ہماری مشترکہ ہندوستانی تہذیب پر کس کس انداز سے اثرانداز ہوتا ہے اس کا بھی بھرپور تجزیہ ہے۔
سہیل انجم چاہتے تو دوسرے اردو صحافیوں کی مانند خبریں لکھ پڑھ کر، مضامین سپردِقلم کرنے اور چھپانے کے کام کرکے اور دوسرے حربے استعمال کرکے مست رہ سکتے تھے لیکن سہیل انجم نے اس کتاب کو تحریر کرکے سچ پوچھیے تو اردو والوں کے سر سے ایک قرض اتارا ہے۔آپ نے اس سے قبل بھی کئی تلخ و شیریں کتابیں صحافت کے موضوع پر دی ہیں جن کی پذیرائی ہمارے دور کے اکابرین کر چکے ہیں۔
’احوالِ صحافت‘ مبتدیانِ صحافت کے لیے ورق ورق رہنما اور ایک دستاویز ہے تو مشّاقان و مشتاقانِ اردو صحافت کے لیے ایک ریمائنڈر اور ریفریشر کی حیثیت رکھتی ہے۔
سہیل انجم ایک ایسے صحافی ہیں جن کی نظروں سے عصری حسیت یا تقاضوں سے متعلق کوئی موضوع چھپ نہیں پاتا اور فوراً ان کا خامہ سبک روی سے چلنے لگتا ہے۔ ادب و فنون، مذہب و جنون، معاشرت و سماج، سیاسیاتِ ملکی و بین الاقوامی، پیشہ و مالیات،شخصیات و سفریات وغیرہ ہمہ قسم کے موضوعات ان کے قلم کی روشنائی مستعار لے کر مرقوم ہوچکے ہیں۔مگر یہ خیال نہ لائیں کہ وہ کافی سن رسیدہ ہیں۔ وہ نئی نسل کے نمائندہ ہیں اور ان کے اساتذہ ان پر فخر کرتے ہیں۔انھوں نے اپنے قلم پر کسی بھی مصلحت کا دباؤ کبھی قبول نہیں کیا اور اپنے محسوسات و مشاہدات کو من و عن لکھا ہے۔ یوں بھی ان کی شخصیت کے ظاہر و باطن سے شرافت و نجابت پھوٹتی رہتی ہے۔ نہایت خوش خصال اور محبت لٹانے والے آدمی ہیں۔ ان کا خلوص دیکھ کر بے ساختہ یہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ ’’اتنے مخلص بھی نہ بن جاؤ کہ پچھتانا پڑے‘‘۔
زبان کے معاملے میں بھی بیحد شستہ، بامحاورہ، سلیس و رواں اردو لکھتے ہیں۔ اور انھیں یہ دستاویز ہم نہیں بلکہ ہمارے عہد کی ایک معتبر ترین ہستی پروفیسر عبدالحق صاحب دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’ان کی تحریر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ادبیت ہے، اسلوبِ تحریر بہت جان لیوا ہے اور اندازِ تحریر دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔ سہیل انجم نئی نسل کے صحافیوں میں ایک امتیاز رکھتے ہیں، ان کے خبر و نظر میں موجود واقعہ کی منصفانہ تعبیر ہمیں متاثر کرتی ہے، اردوصحافت کے ماضی و حال پر ان کی بصیرت افروز نظر ہے، وہ تحریر و قلم کی حرمت کا حتی المقدور پاس رکھتے ہیں۔ وہ اس لیے بھی مجھے عزیز ہیں کہ ان کی تحریریں شگفتگی سے خالی نہیں ہوتیں۔ ادب و انشا سے ہم آمیزی صحافت کے جوہر آشکار کرتی ہے اور دلنوازی بھی بخشتی ہے۔ ان سے بہت توقعات ہیں‘‘۔
’احوالِ صحافت‘ کے ساتھ سہیل انجم ایک درجن کتابوں کے مصنف ہوچکے ہیں جن میں سے بیشتر کا موضوع صحافت ہی ہے۔ اس کثیرتصنیفی عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے باخبر، باریک بین اور دوربین صحافی ہیں۔سہیل انجم ایک کثیرالمطالعہ اور میدانِ عمل کی ایک متحرک شخصیت ہیں۔ ’احوالِ صحافت‘ موصول ہونے کے بعد ہمیں لگا کہ اسے سرسری طور سے پڑھ لیں گے مگر افسوس کہ ہمیں اپنے ارادہ میں ناکامی ہوئی۔ اس کے ایک ایک صفحہ کو ٹھہرٹھہر کر پڑھنا ہوا اور انجام کار ’احوالِ صحافت‘ کو پڑھ کر ہم تو سہیل انجم کے پرستار ہوگئے۔ ذیل میں ان کی کاٹ دار اور تجزیہ نگار تحریر کے چند نمونے ملاحظہ کریں:
۱) اردو صحافت میں کارپوریٹ سیکٹر والے مضمون میں لکھتے ہیں، ’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اردو صحافت کی جانب محبت پاش نظروں سے اچانک کیوں دیکھنے لگے جن کا کردار اردوزبان کے حوالے سے واضح نہیں رہا ہے یا جن کو اس لٹی پٹی زبان سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں جن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ کارپوریٹ یا تجارتی ادارے کسی بھی معاملہ میں اس وقت تک ہاتھ نہیں ڈالتے جب تک انھیں اس سے کسی قسم کے مالی فائدے کی امید نہ ہو‘‘ اس مضمون کا اختتام بھی بہت خوب کیا ہے کہ ’’جس کو ان اداروں سے نکلنے والے اخبار پسند ہوں گے وہ ان میں دلچسپی لے گا۔ فی الحال اس اندیشے میں بھی کوئی دم نظر نہیں آرہا کہ ان اخباروں سے مسلمانوں کا عقیدہ خراب ہوجائے گا اور ان کے ایمان پر تلوار لٹک جائے گی۔ مسلمانوں کا عقیدہ اتنا کمزور اور ان کا ایمان اتنا متزلزل نہیں ہے کہ چند اخبارات ان کو بگاڑ سکیں۔ ہمیں ہر اس تبدیلی کا خیرمقدم کرنا چاہیے جس کے دامن میں اثبات کے امکانات زیادہ ہوں اور نفی کے کم‘‘۔
۲) ’ہمعصر اردو صحافت کے تقاضے‘ میں آپ ان سطور سے ابتدا کرتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ زندہ زبانیں روزگار کی بنیاد پر نہیں بلکہ جذبہ کی بنیاد پر باقی رہتی ہیں اور ان کی شریانوں میں اقتصادیات و معاشیات کے لہو کے بجائے جوش اور جنون حرارت بن کر گردش کرتے ہیں۔ یہ موضوع الگ بحث کا متقاضی ہے کہ اگر زبان روزگار فراہم نہ کرسکے تو کیا ہم اس سے اپنا ناطہ توڑ لیں اور اسے اپنی زندگی کے شب و روز سے خارج کردیں؟‘‘
۳) فیچر اور مضمون کا موازنہ کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں: کوئی ضروری نہیں کہ جو شخص اچھا مدیر، اچھا مضمون نگار اور اچھا صحافی ہو وہ اچھا فیچر نویس بھی ہو۔ کوئی بھی مضمون جہاں سنجیدگی کا متقاضی ہوتا ہے وہیں فیچر کے لیے دلچسپ اور پُرلطف پیرایۂ بیان ضروری ہے۔ مضمون کی عمارت جہاں ٹھوس حقائق کی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے وہیں فیچر کی تعمیر مشاہدے اور وجدان کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ مضمون جہاں معلوماتی ادب کا نمائندہ ہوتا ہے وہیں فیچر تفریحی ادب کا علمبردار ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ تفریحی ادب بھی  اردو ادب کے خزانے کا ایک گراں قدر حصہ ہے، اس لیے فیچر کو تفریحی ادب کہہ کر نہ تو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت کم کی جاسکتی ہے۔‘‘
’احوالِ صحافت‘ پڑھنے سے دلچسپی رکھنے والے اسے براہِ راست سہیل انجم سے حاصل کرسکتے ہیں۔ کتاب کی قیمت دو سو(200) روپے ہے آپ سے رابطہ درج ذیل پتوں پر ہوگا:

Suhel Anjum
370/6A, Zakir Nagar, New Delhi, 110025
M#: 9582078862 / 9818195929
email: sanjumdelhi@gmail.co

Wednesday, February 27, 2013

Indian Muzahikeen (Indian Mockers / IM) have No Hands No Brains
Dr. Rehan Ansari
گجرات (نڈیاڈ،کھیڈا) کے ۲۳ سالہ نوجوان دوسرے سال کے آئی ٹی انجینئرشیوم ویاسؔ (Shivam Vyas) کو چھوڑ دیا گیا۔ ۲۵فروری کو جب یہ خبر انٹرنیٹ پر ہم نے جس لمحہ پڑھی تھی اسی وقت اندازہ تھا کہ یہ ہوگا۔ یہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں نظر آیا تھا۔ لیکن شام کے بعد اس کی خبر بھی ویب سائٹ سے ہٹا لی جائے گی اس کی امید کم تھی لیکن وہ بھی خیر سے پوری ہوگئی۔ اس کورچشمی پر ہم تو ہوئے نثار!
شیوم ویاسؔ پاگل ہے، مجنون ہے، دیوانہ ہے، اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ گجرات سے دلسکھ نگر (حیدرآباد) بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق ایک نیوز چینل کو ’فیک ای میل‘ (Fake eMail) کرنے والے کے ای میل کا کوئی فیکٹ نہیں ہے۔ وہ محض ایک مضحکہ خیز اور دلخراش حرکت تھی۔ یہ ہم نہیں پولیس محکمہ کہتا ہے۔ سچ بھی ہو سکتا ہے۔ بھئی! پولیس کے بیان پر ہم شک کرنے کا گناہ کیوں کریں؟ البتہ ہمیں مسلسل لگتا ہے کہ اے ٹی ایس کی ساختہ ’انڈین مجاہدین‘ کے بالمقابل ایک نئی ٹیم بن رہی ہے جسے ’انڈین مضاحکین‘ (India Mockers) کا نام دینے میں شاید کوئی قباحت نہیں ہے۔دونوں کا مخفف بھی ایک (IM) ہی بنتا ہے۔
اور صاحب! ہمارے ملک میں مرکزی وزارتِ داخلہ کی جانب سے کیے گئے ’اسپیڈ پوسٹ‘ کی ڈیلیوری گھر کے افراد کو تین تین دن کی تاخیر سے ہوتی ہے،لیکن بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے صدر کو ’سادہ پوسٹ کارڈ‘ بلاتاخیر مل جاتا ہے اور وہ میڈیا کو بھی آن کی آن میں دستیاب ہوجاتا ہے تاکہ ’دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں‘ کی نشادن دہی کے کام آسکے۔ اب پوسٹ آفسوں کو بھی میڈیا کے ساتھ تحقیقاتی ٹیم سے جوڑنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ سب مل کر کام کریں گے تو کوئی نہ کوئی ملزم چہرہ تو بنا ہی لیں گے!
 ویسے قارئین جان لیں کہ مذکورہ ای میل خبر کے مطابق بہت ’ویل ڈرافٹیڈ‘ تھا اور اس میں شیومؔ کو لشکرِ طیبہ کی بھی معلومات تھی۔ اس نے حیدرآباد کے بعد گجرات میں بھی دھماکوں کی دھمکی لکھی تھی۔اس میں اہم ترین جگہوں، تنصیبات اور تعلیمی  اداروں کا پتہ بھی تھا، چند موبائل فون نمبر بھی ٹھیک ٹھیک لکھے تھے۔ جعلی دستخط بھی کرنا اسے آتا ہے۔ لیکن شومئ قسمت کہ پولیس کے مطابق وہ ’مجنون‘ ہے! اگر یہ لنک سائٹ سے ہٹایا نہیں گیا ہو تو دیکھیں:
http://timesofindia.indiatimes.com/india/Gujarat-engineer-student-mails-terror-threat-held/articleshow/18683088.cms

ہمیں تو یہ سوچ کر ہی تھرتھری سی بھر گئی کہ اُس نوجوان کا نام اگر شیوم کی جگہ ’شاہ رخ‘ وغیرہ ہوتا تو شاید اس کے ’حقیقی پاگل‘ رشتہ دار تک پولیس اسکیننگ میں ’شریکِ سازش‘ مل سکتے تھے۔
ماضی میں ہماری ریاستی پولیس کے ہاتھ دھماکہ خیز مادوں اور بم سازی کے سامان کے ساتھ چند لوگ لگے تھے لیکن جیسے ہی ’ان کے نام‘ معلوم ہوئے تو میڈیا میں پولیس کے ذرائع سے یہ اطلاع ملی کہ وہ مادّے ان کے لیے کنووں یا پہاڑیوں کی کھدائی یا کھیتوں کی سینچائی وغیرہ میں امداد کی خاطر تھے اور ان کا ریاست یا بیرونِ ریاست ہونے والے بم دھماکوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ انھیں گرفتار تک نہیں کیا گیا، اور اگر گرفتاری ہوئی بھی تو ہمیں کسی ذریعہ سے ان کا فالواَپ نہیں معلوم ہوا۔

دلسکھ نگر بم دھماکوں کی تحقیقات کا رخ بھی کیا دلچسپ ہے۔ میڈیا اور پولیس تو کوششِ بسیار کے بعد حاصل کردہ سی سی ٹی وی کے کلپ میں (گمان ہے کہ) اُس سائیکل بردار شخص کے دھندلے سے عکس میں کوئی داڑھی اور ٹوپی کی تلاش میں سرگرداں ہیں، مگر CCTV کے آپریٹرس سے اس بات کے جواب کے طلبگار نہیں ملتے کہ آخر ’پانچ دنوں تک‘ انھوں نے منقطع کیبل کا کوئی نوٹس لیا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ ہمیں یہ اطلاع بھی اب تک نہیں ملی کہ ان کیبلوں کو دوبارہ قابلِ عمل بنا بھی لیا گیا یا ہنوز ویسے ہی پڑے ہیں۔ تحقیق کاروں کو یہ اطلاع تو ضرور ہونی چاہیے کہ مہاتما کا قتل کرنے والے ناتھورام گوڈسے سے لے کر ناندیڑ پٹاخہ فیکٹری اور مالیگاؤں سمیت سبھی سائیکل اور موٹر سائیکل والے دھماکوں میں ملوّث افراد بے نقاب ہوچکے ہیں اور سب نے اصلی و نقلی داڑھیوں اور ٹوپی کا استعمال جس مقصد سے کیا تھا اس کے بھی شرمناک نتائج معلوم ہوچکے ہیں۔ پھر یہ افواہ یا Hoax  اور ’فیک ای میل‘ کی بیماری بھی کوئی نئی تو ہے نہیں۔ ماضی میں جو بم دھماکے ہوئے اس وقت بھی یہ کھیل کھیلا جا چکا ہے۔ کسی اسٹیڈیم میں بم کی افواہ، کسی ریلوے اسٹیشن اور ہوائی اڈے پر افواہوں کا پسارا، سابق صدر جمہوریہ عبدالکلام کو بھیجے جانے والے فیک ای میل وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ اتفاق سے ان سبھی افراد کے اصلی نام ظاہر ہونے کے بعد تقریباً سب کو پولیس نے ’’ذہنی معذوری‘ کا سرٹیفکیٹ دلوایا تھا!
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ہمارا خیال (خام) ہے کہ اپنا میڈیا بھی مذکورہ بالا تاریخ سے خوب واقف ہے لیکن اس کے اغراض و مقاصد تو ’’سب سے آگے آگے‘‘ چلنے کے ہیں اس لیے اسے اب ’’میڈیا ٹرائل‘‘ Media Trial جیسی استناد سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ میڈیا کے دُھریندر تو خبر پھوٹتے ہی ہندوستانی عدلیہ کو منہ چڑانے لگتے ہیں۔ اور اتنا چلّاتے ہیں کہ انصاف پسندوں کا مطالبہ اس شور میں بالکل دم توڑ دیتا ہے۔ خیر!
کوئی بھی ملک عوام سے بنتا ہے۔ ہندوستان اس دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور اس کے عوام سے ہی بنا ہے۔ عوام میں اگر ان کے مذہب، ذات پات یا چند دوسری بنیادوں پر تفریق کی عادت رکھیں گے تو بھلا انتظامیہ کیسے سب کا (خصوصاً مسلمانوں کا) اعتماد حاصل کرسکے گا، اور کس طرح ملک میں سکون و ترقی کی راہیں کھل سکیں گی؟
اصحابِ اقتدار کو اب بھی ہوش میں آنا چاہیے۔ اپنی آنکھوں سے رنگین شیشے اتارنا چاہیے۔ اگر یہ نہیں کریں گے اور آج جب کل تاریخ بن جائے گا، ہم سب نہیں ہوں گے تو آئندہ نسلیں آپ کو مجرموں کے نام سے یاد کریں گی؛ ملک کے معماروں یا محافظوں کے نام سے نہیں! خواجہ یونس، عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کے جعلی انکاؤنٹر نے تو آپ کے اس سسٹم کی سڑاند کا ڈھکن بھی پوری طرح کھول دیا ہے
۔

Thursday, February 7, 2013

The Side Effect of being a lady IAS officer
and other News of today

Dr. Rehan Ansari
آج کے مختلف اخبارات میں مندرجہ بالا تین خبریں شائع ہوئی ہیں۔ سرخیاں اور متن معمولی طور سے الگ الگ ہیں۔ ہم نے یہاں ممبئی سے شائع ہونے والے روزناموں ’اردوٹائمز‘ اور مراٹھی ’سامنا‘ کے عکس مع متن پیش کیے ہیں۔ اور ان پر اپنی خیال آرائی!
٭پہلی خبر (یواین آئی کے حوالے سے) کا تعلق ایک ریاستی وزیر کے تعلق سے ہے جس نے اپنی ریاست کی ایک لیڈی آئی اے ایس افسر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) کی عوامی جلسے میں بنام پذیرائی ایسی تعریف کیا جو غیرڈپارٹمنٹل ہی نہیں اسے جنسی لذت خیزی Sexist سے تعبیر کیا جائے گا۔

Click the photo to enlarge to read
ہمیں  یاد آیا کہ ہم ایک بچی کے تعلیمی مستقبل کے تعلق سے فکرمندی لے کر ممبئی میں ماہرِ تعلیم جناب مبارک کاپڑی صاحب سے رجوع کیا تھا اور یہ عندیہ ظاہر کیا تھا کہ بچی کو تعلیمی جلسے اٹینڈ کرتے ہوئے آئی اے ایس افسر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کی خواہش ہے اور وہ اس کے لیے ایلی جیبل eligible بھی ہے، تو انھوں نے یہ راز کھولا تھا کہ کسی بھی بچی اور خصوصاً مسلم بچی کے لیے یہ دونوں جگہیں ایسی ہیں جو پروفیشنل لائف میں مردوں کی اکثریت والی دنیا ہے۔ اس میں مسلسل خطرات رہیں گے۔ اس لیے اہلیت رکھنے والی طالبات کے لیے اور بھی میدان ہیں ان پر توجہ مرکوز کریں۔ آج کی خبر پڑھنے کے بعد عبرت بھی ہوئی اور جانے کتنے غیرمنکشف کونوں سے کئی چیخیں عدم تحفظ کی ہمارے کانوں سے ٹکرائیں! ہمیں ڈی ایم بھاگیہ لکشمی (یا کیپشن کے مطابق دھن لکشمی) کے بھاگ سے ہمدردی بھی ہے اور ان کے لیے حفاظت کی دعا دل سے نکلتی ہے۔
٭ دوسری خبر کو غیر اردوداں اخبارات نے بڑے طعنہ باز انداز میں شائع کیا ہے۔ 
Click the photo to enlarge to read
یعنی مرکزی وزیرِ داخلہ سشیل کمار شندے نے اپنے جے پور والے ’بھگوا دہشت واد‘ والے بیان سے ’یوٹرن‘ لیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا!... کیا نئی بات کہی ہے؟!... جب مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے تو اسے مراٹھی میں ’ہیروا دہشت واد‘ (بہ معنی گرین ٹیررِزم) مسلم ٹیرر اور اسلاموفوبیا جیسے جانے کتنے نئے اور پرانے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اور مسلمان وضاحت کرتے ہیں کہ دہشت اور دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے تو یہی عناصر اسے نظر انداز کرتے رہتے ہیں ... سُنی اَن سنی کرتے ہیں... خیر، ہمیں پوری امید ہے کہ اس عادت کو یہ اب بھی نہیں چھوڑیں گے... لیکن، ہمیں جو فکر لگی ہے وہ یہ کہ مہاراشٹر ہو یا ملک کی کوئی اور ریاست ہو یا مرکز ہی ہو، جب بھی بھگواوادیوں کی دہشت کے خلاف کسی وزیرِ داخلہ نے کوئی بیان دیا ہے تو اس کے بعد ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرنا اور اقدام تو دور کی بات ہے وہ ایسے بزدل ثابت ہوا کیے ہیں کہ اپنا بیان واپس لینے میں ہی عافیت جانی ہے۔ ہمیں کوئی بہادر ریاستی یا مرکزی وزیرِ داخلہ کیوں نصیب نہیں ہوتا؟ ایسے مقتدر عہدہ پر متمکن ہونے کے بعد کسی بھی شخص کو اس عہدہ کی رسوائی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ جبکہ سشیل کمار شندے نے اپنے جے پور والے بیان میں واضح طور سے ثبوت اور رپورٹ کی تحویلی کی بات کی تھی اور ان کے بعد داخلہ سکریٹری نے بھی اس کی توثیق کی تھی۔ لیکن آج کی خبر سے تو محسوس ہوا کہ مرکزی وزیرِ داخلہ کو سادھوؤں سے ڈر کر برسرِ اقتدار جماعت نے ہی ’دماغ کاجلاب‘ دیا ہے تاکہ وہ سیاسی گنگا میں اشنان کرلیں۔
٭ تیسری اور تشویشناک خبر یہ کہ مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن (MPSC) امتحانات کے پرچے حکومت اردو اور ہندی میں شائع نہ کرے۔

Click the photo to enlarge to read
ہمیں کمل ہاسن کی نئی فلم پر احتجاج کے تعلق سے ان کے مشہور کردہ اختراعی جملے Cultural Terrorism میں کسی قدر ترمیم کے ساتھ کہنے دیجیے کہ ’ایم پی ایس سی کے لیے اردو/ہندی پرچہ‘ کے خلاف مہاراشٹر میں شیوسینا نے ’’ایجوکیشنل ٹیررِزم‘‘ Educational Terrorism پھیلا دیا ہے اور اس کے ایم پی سنجے راؤت سمیت نومنتخبہ شیوسینا چیف اُدھوٹھاکرے نے حکومت کو انتباہ دیا ہے کہ ’اردو/ہندی میں MPSC کے پرچے ہرگز نہ نکالے، کیونکہ اس سے مراٹھی طلبہ کا نقصان ہوگا!... شیوسینا نے اسی خبر میں یہ دھمکی بھی دی ہے کہ بصورتِ دیگر نتائج کی ذمہ دار ریاستی حکومت ہوگی۔ہمیں آغاحشرکاشمیری کا وہ مشہور مکالمہ یاد آگیا ’’تمہاراخون خون ہے، ہمارا خون پانی!‘‘۔
٭ایک خبر یہ بھی ہے کہ کل ہند سطح پر ہونے والے ’پری میڈیکل امتحان: نیٹ‘ NEET کے پرچے سی بی ایس ای بورڈ اردو زبان میں شائع نہیں کرے گا۔ یہ ملک کی ایک سرکاری زبان ہی نہیں بلکہ ملک کی (ملک گیر) ’اکلوتی اصلی زبان‘ کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ مانا کہ اس کی حالت ملک گیر سطح پر اردووالوں نے ہی خراب کی ہے مگر ابھی مہاراشٹر سمیت دیگر کئی ریاستوں میں اردومیڈیم سے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خود مہاراشٹر میں ایک سو اڑسٹھ 168 جونیر کالج اردو میڈیم کے جاری ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج نما دفتری درخواست کی تحریک چلی ہوئی ہے۔ ہم بھی اس تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

Thursday, January 10, 2013

Akbaruddin Owaisi vs Inspector Sujata Patil 
Who is more venomous?
Dr. Rehan Ansari
حیدرآباد میں رکنِ اسمبلی اکبرالدین اویسی کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ بہت اچھا ہوا۔ انھوں نے غلطی تو یقینا کی ہے۔ جس کا انھیں خمیازہ بھی بھگتنا ہوگا۔ پبلک لائف میں یہ سب تو جھیلنا ہی پڑتا ہے۔ ہم نے بھی ’یو ٹیوب‘ YouTube پر اس تقریر کی کلپ دیکھی اور سنی۔ اس کلپ کے دیکھنے اور سننے کے بعد ہمارا یہ تاثر ہے کہ انھوں نے انتہائی مکروہ اور بدمزہ انداز میں ہندوؤں کے عقائد اور کثیرمعبودیت کی بات پیش کرنے کے ساتھ ہی عیدالاضحی پر قربانی کے حوالے سے گوشت خوری کا بیان کیا ہے۔ یہ اجلاس حیدرآباد کے نرمل علاقے میں 22دسمبر 2012کو منعقد کیا گیا تھا۔ ہمارے دین اسلام میں کسی بھی دیگر مذہب کے معبود یا معبودوں کو غلط الفاظ اور انداز میں یاد کرنے یا بیان کرنے کی صریح ممانعت کی گئی ہے اس لیے اکبرالدین اویسی کو دین کے اس حکم کا بھی خیال کرنا چاہیے۔ یہ جملۂ معترضہ ہوسکتا ہے اگر ہم لکھیں کہ عقائد اور گوشت خوری کا اندازِ بیان غلط تھا، خصوصاً برادرانِ وطن کو عمومی طور سے گوشت خوری اپنانے کی بات کہنا، جبکہ ان میں سے بیشتر کے یہاں گوشت خوری کی جاتی ہے، کہیں بکرے کی، کہیں مچھلی کی، کہیں مرغ کی اور کہیں دوسرے جانوروں اور پرندوں کی اور انڈوں کی صورت میں بھی، لیکن باقی باتوں میں غیرجذباتی طور سے سوچیں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا ہندو بھی انکار کرسکیں۔ ’سگن بھکتی‘ کا عقیدہ رکھنے والے کثیرمعبودیت کے قائل ہیں اور ان میں اوتار بھی مسلسل جنم لیتے رہتے ہیں۔ انھیں عیدِ قرباں کا حوالہ دینے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ گوشت خوری کی بات صرف عید کے روز پر ہی موقوف تو نہیں ہے۔ البتہ تقریر کے کسی حصہ میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ایک فرقہ دوسرے فرقہ پر نقصاندہ حملہ کرے۔ اس کے باوجود ہم اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کے سیکولر ڈھانچہ اور برادرانِ وطن کی اکثریت کی رواداری اور جمہوری سوچ کا احترام کرنا لازمی ہے۔ اس لیے ایسے کسی بھی خیال کے عوامی مقامات پر اظہار سے بچنا ہی چاہیے۔ کیونکہ ہمارے مذاہب و عقائد میں اختلاف تو ہمیشہ رہنے والا ہے، اس کے باوجود ہم سب کی وطنی شناخت ’ہندوستانی‘ ہے اور ہمیں اپنے ملک سے ہر صورت میں محبت، اس کا احترام اور اس کے سیکولر کردار کا لحاظ و حفاظت کرنی لازمی ہے۔کیوں کہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ ہے۔


Akbauddin Owaisi being arrested in Hyderabad
اب آئیے ایک اور پہلو پر غور کریں۔ مسلمانوں یا مسلم لیڈروں کی ایک ایک حرکت اور بیان (خصوصاً اردو زبان والے) پر ایک سینسر (انگریزی املا بھی لکھ دیں تاکہ غلط فہمی نہ ہو؛ Sensor بہ معنی حساس آلہ) لگانے والے ہمارے ایڈمنسٹریشن کا یہ سینسر پتہ نہیں اس وقت کس اندھے کنویں کی نذر ہو جاتا ہے جب غیراردوداں، نام نہاد ہندوتواوادی مقررین یا صحافی، شاعر اور کارٹونسٹ حضرات اس ملک کے یکساں جمہوری حقوق  (لیکن دیگر مذہبی عقیدہ) رکھنے والے ’ہندوستانیوں‘ کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والے پیغامات اور بیانات سے ملک کے سیکولر ڈھانچے کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں کس خصوصی حق کے تحت۔ ماضی سے لے کر آج تک ناموں کی فہرست بھی مختصر نہیں ہے مگر حالیہ تاریخ سے چند نام جو بڑے ہیں ان میں آنجہانی بال ٹھاکرے، ڈاکٹر پروین توگڑیا، اومابھارتی، ورون گاندھی وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں میں شاید ہی کوئی نام ایسا ملے جو ان کی ہمسری میں ہندو یا ملک مخالف بیانات دیتا رہا ہو۔ یہاں ملحوظ رہے کہ احتجاجی بیانات، فرقہ وارانہ اشتعالی بیانات کا درجہ نہیں رکھتے۔ (یہ اور بات کہ ہمارا ایڈمنسٹریشن اس کو بھی برا ہی سمجھتا ہے!)۔ کیونکہ اسی ایڈمنسٹریشن میں انسپکٹر سجاتا پاٹل کی سوچ کی حامل عورتیں اور بھی ہوسکتی ہیں اور مرد بھی۔ پولیس کی اس فکر کا ہمیں احساس ہے کہ مسلم ’کمیونیٹی‘ اور پولیس میں ایک خلیج حائل ہے، بے اعتمادی کی!۔ اس کی وجوہات یقینا ہیں جس کی ایک مثال حاضر ہے۔
انسپکٹر سجاتا پاٹل، ماٹنگا پولیس میں سینئر ٹریفک پولیس انسپکٹر ہیں۔ ماہ نومبر 2012 میں محترمہ سجاتا پاٹل کی زہریلی فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی ایک نظم ’آزاد میدان‘ خود ممبئی پولیس کے ماہنامہ ’ممبئی پولیس سنواد‘ میں شائع ہوئی ہے۔ یعنی اکبرالدین اویسی کی ’زہریلی تقریر‘ سے پورے ایک مہینہ پہلے۔ نظم ہندی زبان میں لکھی گئی ہے جس کا اردو ورژن ہم یہاں پیش بھی کررہے ہیں۔ اس نظم کو پورے اہتمام سے، پورے صفحہ پر دیا گیا ہے۔ یہ نظم کوئی تصوراتی یا نظریاتی نظم نہیں ہے بلکہ بیانیہ ہے۔ ’آزاد میدان‘ سانحہ کے پس منظر میں ان جذبات کا من و عن اظہار ہے جو سجاتا پاٹل کے دل میں فوری طور سے اٹھے تھے، وہ تو شکر ہے کہ محترمہ کی ڈیوٹی ماٹنگا میں ہے۔ اسے ’ممبئی پولیس سنواد‘ میں شائع کرنے سے اس نظم کی معنویت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ممبئی پولیس کا ترجمان ماہنامہ ہے۔ یقیناً بہت سے پولیس والوں میں اس کا ابلاغ ہوا ہے۔ مگر اس پر کوئی پولیس ایکشن تو کجا اس کا نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ ملاحظہ کیجیے انسپکٹر سجاتا پاٹل کی نظم من و عن:



Image of the page bearing poem "Azad Maidan" by Insp. Sujata Patil
Click to enlarge
عنوان: "آزاد میدان‘‘
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
لاٹھی ہاتھ میں تھی، پستول کمر پہ تھی،
گاڑیاں پھونکی تھیں، آنکھیں نشیلی تھیں،
دھکا دیتے اُن کو، تو وہ بھی جلتے تھے،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
حوصلہ بلند تھا، عزت لُٹ رہی تھی،
گراتے ایک ایک کو، کیا ضرورت تھی اشاروں کی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
ہمت کی غدّاروں نے امرجیوتی کو ہاتھ لگانے کی،
کاٹ دیتے ہاتھ ان کے تو فریاد کسی کی بھی نہ ہوتی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
بھول گئے وہ رمضان، بھول گئے وہ انسانیت،
گھاٹ اُتار دیتے ایک ایک کو،
ارے، کیا ضرورت تھی کسی کو ڈرنے کی،
سنگین لاٹھی تو آپ کے ہاتھ میں تھی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
حملہ تو ہم پہ تھا، جنتا دیکھ رہی تھی،
کھیلتے گولیوں کی ہولی تو،
ضرورت نہ پڑتی، نوراتری میں راوَن کو جلانے کی،
رمضان کے ساتھ ساتھ، دیوالی بھی ہوتی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
سانپ کو دودھ پلا کر ،
بات کرتے ہیں ہم بھائی چارے کی،
خواب اَمر جوانوں کے،
اور جنتا بھی ڈری ڈری سی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی    ٭٭٭
محترمہ سجاتا پاٹل کی اس نظم پر اور ہندوستانی مسلمانوں پر اعتبار نہ کرنے کے سلسلے میں باتیں تو بہت سی کی جاسکتی ہیں مگر ہم ان سے گریز کرتے ہوئے ان کے چند فیصلے جنھیں نظم میں استعارہ بنایا گیا ہے ان کی وضاحت ضرور چاہیں گے: ’اشاروں، گھاٹ، غدّاروں، راوَن اور سانپ‘... یہ کس خیال کے ترجمان ہیں اور اتنا کھلا ہوا پیغام کسے دیا گیا ہے۔ اگر ہمیں ایک رائے دینے کی جمہوری آزادی ملتی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محض ایک مہینہ کے فرق سے ماہ جنوری 2013 میں ایک معمولی واقعہ کے بعد دھولیہ میں پولیس رائفل کا پہلا ٹریگر دبانے میں ہوسکتا ہے اس نظم کا بھی رول رہا ہو۔
بہرحال ہم اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ سیاست کے گلیاروں میں نووارد اکبرالدین اویسی اگر اس ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے نقصاندہ ہو سکتے ہیں تو وہیں انسپکٹر سجاتا پاٹل جیسی پختہ کار پولیس افسر کے خیالات و افکار بھی اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک بات کو عام ہونا چاہیے کہ یہ ملک صرف ’جیو اور جینے دو‘ کا کلیہ اپنانے سے ہی پرامن رہ سکتا ہے، کسی بھی قسم کے ٹکراؤ سے ملک کے عوام اور ملک کی ترقی کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے
۔

Sunday, January 6, 2013

If you are really proud of India
Dr. Rehan Ansari
دہلی ہنوز دہل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پورا ملک بھی دہل رہا ہے اور کہیں کہیں بیرونِ ملک بھی۔ جو کچھ ہوا وہ انتہائی برا تھا۔ بےحد شرمناک۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بہت برا ہوا کہ ’ریپ‘ اور اس کے ہندوستانی مترادفات زنا، بلاتکار وغیرہ جیسے الفاظ، جن کے مفہوم کو ایک خاص عمر سے مناسبت ہے اُسے میڈیا کی مدد سے، گھر کا کم شعور بچہ بچہ بھی جاننے لگا ہے؛ ہو سکتا ہے بہت سے افراد ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کریں۔ مگر ہم یہ خیال پیش کرتے ہوئے پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ کیونکہ ایک بچہ جب اس لفظ کے سیاق و سباق کے تعلق سے سوال کرنے لگتا ہے تو ہمارے پیروں تلے تربیت کی زمین کھسکنے کا احساس ملتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس معاملے میں کمزور ہوں۔ مگر اس دیش میں ہم جیسے تو اور بھی والدین ہیں!
تو کیا احتجاج غلط ہورہا ہے؟... جی نہیں... یہ منشا ہی نہیں ہے... ہم تو اس احتجاج کے انجام کا غلط یا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں... اور ناکام ہیں!... البتہ پتہ نہیں کیوں احتجاج کی نوعیت و طوالت ہمیں کچھ سازشی سی لگتی ہے۔
آواز میں توانائی ہوتی ہے۔ جب بہت سی آوازیں ایک ساتھ کسی مقصد کے لیے اٹھائی جائیں تو اس توانائی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس احتجاج میں ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا۔ آواز کا اثر بھی دیکھا کہ اربابِ اقتدار خوفزدہ سے ہیں اور ’مون برت‘ رکھے ہوئے ہیں۔ چُپ کا روزہ!... عام آدمی جب چلّا چلّا کر نڈھال ہوچلا تو بڑی مشکل سے سونیا گاندھی کے منہ سے اتنا پھوٹا کہ ’’ہم نے آپ کی آواز سن لی ہے‘‘!
ہمیں مظلوم و مُثلہ اور مہلوک لڑکی کا گہرا صدمہ ہے۔ اس کے والدین نیز جملہ اہالیانِ خانہ سے بھی پوری ہمدردی ہے۔ میڈیا نے اس کا نام مخفی رکھ کر، اس کی تصویر بچا کر اور اس کے گھر کا اَتہ پتہ ظاہر نہ کرکے جس قدر پردہ داری کی ہے اس کے لیے اسے مبارکباد دیتے ہیں۔ میڈیا کے رویہ سے یہ بات اظہرمن الشمس ہوگئی کہ عورت کی عزت پردہ داری میں ہی محفوظ ہے۔ یہ آفاقی کلیہ ہے۔
خیر، انجام تو مبینہ زانیوں کا جو ہونا ہے اس کا ہم بھی آپ کی مانند انتظار کر رہے ہیں، کہ ہمارے اختیار میں یہی ہے... ہم بھی اپنا احتجاج درج کرتے ہیں کہ ان رذیلوں کو ایسی عبرتناک سزا ملنی چاہیے کہ پھر کوئی اس جرم کے ارتکاب کی ہمت نہ کرسکے۔
لیکن... زنا کا جرم تو انسانی تاریخ جتنا پرانا ہے... کیا دہلی کے مبینہ زانیوں کو سزا ملنے کے بعد ختم ہوجائے گا اس کا امکان؟... ہنسنا بھی محال ہے اور رونا بھی ضروری ہے۔ جن ملکوں میں اس جرم کے ارتکاب کی بھنک بھی نہیں لگ پاتی ہم نے سن رکھا ہے کہ وہاں بھی کسی نہ کسی طرح، چوری چھپے، ایک آدھ واردات ہو جاتی ہے۔ اور اگر پکڑے گئے تو سمجھو گئے کام سے۔ فوری طور پر۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی وارداتوں کو روزانہ سیکڑوں اور ہزاروں (لاکھوں لکھنے میں احتیاط مانع ہے) کی تعداد میں انجام پانے کے باوجود ’زنا‘ کی تعریف سے دور رکھا جاتا ہے بلکہ اسے ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ Live-in relationship بہ معنی ’ہم باش‘ جیسا خوش کن نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ابھی ’راضی بہ رضا‘ والے عمل کو زنا میں شامل کرنے سے کچھ لوگوں کو اعتراض ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی شکلوں میں ہمارے ملک میں زنا کا رواج ہے۔ پھر، اپنے ملک پر ہم جس قدر فخر کرتے ہیں اسی ملک میں ایسی پوری پوری بستیاں بسائی گئی ہیں جہاں زنا کرنے کے لیے کھلی چھوٹ میسر ہوتی ہے۔ احتجاج آمادہ جدید کلچر کے دلدادہ افراد سے ہم ایک سوال تو ضرور کریں گے کہ آپ کتنے فیصدی ’ستارہ برانڈ‘ ہوٹل یا غیرستارہ بردار گیسٹ ہاؤس اور ریسورٹ بتلا سکتے ہیں کہ جہاں کسی اجنبی بیسوا، داشتہ یا کسبی کے ساتھ شب بسری کی سہولیات بہم نہیں ملتیں؟ کس کی سرپرستی میں یہ سب ہوتا ہے؟ کیا حکومت کے علاوہ یا ہمارے قانون کے علاوہ کسی اور سے یہ آسانیاں ممکن ہیں؟ کیا یہ سب زنا اور بلاتکار یا ریپ نہیں ہیں؟ کیوں کبھی کوئی احتجاج اس کے خلاف نہیں ہوتا؟ یہاں ہم گجرات اور کشمیر میں حکومتی سرپرستی یا  پولیس اورفوجی استبداد میں عورتوں پر ہوئے جنسی مظالم پر اس لئے نہیں لکھ رہے ہیں کہ نہ حکومت کے کانوں میں یہ آواز اثر کرتی ہے اور نہ فوجی سربراہ سے کسی انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں.
حالیہ سنگین واردات کے بعد تحریکی، اخلاقی، قلمی، فلمی اور ہر طرح کے احتجاج میں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ملک کے ہر طبقہ کی اکثریت نے بجاطور سے ہمدردی کا اور فکر کا اظہار کیا ہے۔ زانیوں پر ہر جگہ تھوکا گیا ہے۔ لڑکی یا عورت ایک انسان کی ماں ہے۔ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس کے ناموس کی حفاظت سے مرد کا وقار بڑھتا ہے، رتبہ اور عزت بڑھتی ہے۔ سماج کا ناموس عظیم بنتا ہے۔ اس لیے انسان (بہ معنی مرد) کو اپنی حدود بھی جاننی چاہیے۔ اسے حیوان نہیں بننا چاہیے۔ وہ عورت کے ناموس کی جتنی حفاظت کرے گا اس کی عزت و وقار میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
سماج مرد اور عورت سے مکمل ہوتا ہے۔ اس گاڑی کا ایک پہیہ بھی بے قابو ہوا تو گاڑی کی چال میں یکسوئی نہیں ملے گی۔ ہمارا سماج کسی قدر بے سمت چل رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ اسے بے سمت کرنے میں مرد بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔ جب سے مغربی کلچر کی یلغار ہوئی ہے، جنسی تمیز کو ہلکایا گیا ہے، تب سے لڑکیاں (اور بعض عورتیں بھی!) بہت بے باکی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کالجوں اور عوامی راستوں یا پارکوں میں ان کی حرکت (اور ملبوس) پر جس کسی نے توجہ دلانے کی کوشش کی اسے لعن طعن اور بدزبانی سے نوازا گیا۔ اُس خیرخواہ کو بدخو اور بدطینت سمجھایا گیا۔ اس کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑایا بھی گیا۔ حتیٰ کہ وہ حضرت یا خاتون نے گوشہ نشینی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ جاری ایام میں بھی ایسا ہوا ۔
These should never be considered as bad dresses
because they are the attires of daily Indian life
زیرِ تبصرہ احتجاج میں ایسے مناظر اور واقعات بھی دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کو ملے جہاں بہت سے احتجاجیوں نے سنجیدہ پیغامات دئیے اور پلےکارڈ نیز بینروں میں بھی اس کا اظہار کیا، وہیں کچھ ’جدیدلڑکیوں‘ کے گروہ نے حسبِ عادت ’’ کپڑے نہیں، سوچ بدلو/ نظر تیری بری، پردہ میں کروں؟/ میرا اسکرٹ نہیں تیرا بے قابو ہونا ذمہ دار ہے‘‘ وغیرہ جیسے پیغامات بھی دیئے۔ کیا معنی ہیں اس کے؟... ہمارا سوال یہ ہے کہ جنسی عمل کا محرک یا اس پر اکسانے والی کیا شئے ہوتی ہے؟ کیا بیٹھے بیٹھے مرد یا عورت کو جنسی بھوک یا شہوت جاگ جاتی ہے؟ کیا اس شہوت کی بیداری کو غلط جذبہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ جی ہاں، غلط جگہ، غلط محرک اور غلط حرکت کو جائز نہیں کہا جاسکتا۔ بجلی کی رو اگر صحیح کنکشن میں دوڑتی ہے تو مسلسل فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر یہی بجلی اگر غلط وائر اور غلط کنکشن میں داخل ہوجائے تو سوائے شارٹ سرکٹ اور نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ’جدید لڑکیاں‘ یا جدید خیال والی عورتیں ہمیشہ غلط کنکشن کو ترغیب دیتی ہیں تو انجام کار انھیں نقصان تو اٹھانا ہی پڑ سکتا ہے۔ یہ کہنے یا لکھنے والے کو آپ کے لعن طعن خاموش تو کرسکتے ہیں اور وہ مصلحتاً خاموش بھی ہو جائے گا مگر آپ کا نقصان تو نوِشتۂ دیوار کی مانند صاف ہے۔ اپنے جسم کی نمائش کس لیے کرتی پھرتی ہیں آپ؟ کیا مردوں کو اعصابی آزمائش سے گذارنے کے لیے، ردّ عمل میں نقصان کون اٹھائے گا؟

Our institutes and paths are not backwards
Boys should never look with greed. But, be blind
معروضات اور بھی ہیں، ان کے دو دو پہلو بھی ہیں ، بات لمبی ہوجائے گی، غیر مختتم، مگر یہ بات کہ...احتجاج کے دوران عورتوں کے تحفظ کے لیے سخت قانون بنانے کا مطالبہ بھی شد و مد کے ساتھ کیا جارہا ہے! اچھی بات ہوگی لیکن... آوارہ مزاجوں پر تو کوئی خاص اثر نہیں ہوگا، ہاں البتہ، شریف مردوں کو جھرجھری سی چھوٹی ہوئی ہے۔ پبلک سواریوں میں داخل ہوتے ہوئے بھیڑبھاڑکے وقت دھکم پیل کے سبب کسی لڑکی کی معمولی سی شکایت پر شریف زادہ پریشان ہو سکتا ہے۔ وہ جتنی احتیاط سے پہلے چلتا تھا اب اس سے کئی گنا احتیاط برتنے میں اسے لڑکی کو زیادہ دھیان سے دیکھنا پڑے گا، جو بہر صورت اور لازماً خطرناک ہو سکتا ہے۔