اپنا تجربہ ایسا رہا ہے کہ دنیا میں دوسری زبانوں کے اخبارات کی قیمت جب بڑھتی ہے تو اس کے مقابلے میں اردو اخبارات کی قیمت اس درمیانی وقفے میں تین سے چار مرتبہ بڑھائی جاتی ہے۔ آج کل پھر یہی موسم ہے۔ دوسری زبانوں کے اخبارات سے تقابل کیا جائے تو اردو کے اخبارات ہر محاذ پر کافی پچھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب قیمت بڑھانی ہو تو معذرتانہ بڑھاتے ہیں۔ کسی اور محاذ پر انھیں کبھی معذرت کرتے نہیں پایا جاتا۔ یہ محاذ معیارِ طباعت کا ہو، اخبار کی ڈیزائننگ کا ہو، تحقیقی صحافت کا ہو، کاغذ کی کوالیٹی کا ہو، انتخابِ مشمولات و مضامین کا ہو، قارئین کی صحتمندانہ تنقید یا آرا کا ہو، اشتہارات کی معقولیت کا ہو... حتیٰ کہ زبان یا اِملے کی صحت کا معاملہ ہو؛ ہر جگہ ’’اصرار و پر اسرار‘‘ اور’’ چلتا ہے‘‘ والا معاملہ جاری و ساری رہتا ہے۔
اخباربینی ایک ایسی عادت ہے، چسکا ہے، جو ایک بار لگ گیا تو کسی فرد کو صبح آنکھ کھلتے ہی شدید طور سے اس کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ملے تو اس کا موڈ بالکل بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے کسی (مستحکم) اخبار کی تعدادِ اشاعت یومیہ کسی بھی انداز سے کم نہیں ہوا کرتی۔ اخباروں کی کوشش بھی ہمیشہ ایک نیا یعنی اضافی ٹارگٹ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے انھیں گھاٹے میں جانے کے لیے اخباری کاغذ کتنا بڑا رول اداکرتا ہے اسے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بعض ایسے اخبارات بھی اپنا دام بڑھانے لگتے ہیں جن کا نیوزپرنٹ (کاغذ) ہوٹلوں میں دئیے جانے والے ٹشوپیپر کے مقابلے میں بھی کم معیاری رہا کرتا ہے، انھیں ردّی والے بھی لینے میں ہمیشہ گھروالوں کا منہ تاک کر لیتے ہیں یا لینے سے انکار کردیتے ہیں۔
آئیے ذرا تجزیہ کریں کہ کیا واقعی اخبار کی قیمت ان ’’بڑے اخبار‘‘ کے اداروں کے بجٹ کو اتنا متاثر کرتی ہے کہ وہ اسے اپنے قارئین کی جیب سے نکالنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
آج کل اردو کے اخباروں کی قیمت چار روپے یا پانچ روپے یومیہ چل رہی ہے۔ یہ اخبارات تعداد میں بھی بیس ہزار یا اس سے زیادہ چھپ رہے ہیں۔ اگر اس (بظاہر غیرمتاثرکن) تعداد کے پیشِ نظر ہم حساب کریں تو یومیہ ایک سے دولاکھ روپے تک اخباری اداروں کو صرف اخبار کی فروخت سے حاصل ہوتے ہیں جس میں سے ڈسٹری بیوشن کی رقموں اور کمیشنوں کو منہا کیا بھی جائے تو تقریباً پون لاکھ روپے یومیہ یا بیس تا تیس لاکھ روپے ماہانہ بنتے ہیں۔ مدیران اور عملہ کی ایک اوسط تعداد پچاس بھی مان لی جائے (جو بہت زیادہ ہے) اور انکی ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار فی کس کے انتہائی زیادہ اوسط سے بھی نکالیں تو بارہ سے پندرہ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ یعنی صرف اخبار کی فروخت سے ادارے کو اتنا ضرور بچ رہتا ہے کہ وہ ’’کھا پی کر گھاٹے میں نہیں‘‘ جاسکتا۔ دوسری مدوں سے ہونے والی آمدنی کو ہم نے تو ابھی جوڑا بھی نہیں ہے۔ ان میں سب اہم اشتہارات کی آمدنی ہے۔ ان بڑے اخبارات کے اشتہارات کی شرح بھی ایسی بڑھ چکی ہے کہ عام طور سے اشتہارات دینے والے اب خوشی سے نہیں بلکہ اندیشوں کے ساتھ اشتہارات دیتے ہیں کہ کیا پتہ وصول بھی ہوگا یا ڈوب جائے گا۔ پھر بھی ماضی کے مقابلے انھیں (کاروباری اداروں کے) اشتہارات بھی بھرپور ملنے لگے ہیں۔
دوسری آمدنی سیاسی حضرات یا پارٹیوں سے کی گئی سیٹنگ کے نتیجہ میں یا مختلف ضمیموں کی اشاعت کی آڑ میں کی جانے والی آمدنی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جسے تحریر کرنا اب معیوب ہے۔ بلکہ یہ تو اب جرنلسٹک پروفیشن کا ایک ’’پارٹ‘‘ بن چکا ہے۔ خصوصاً سابقہ الیکشنوں میں یہ پول بہت بڑے پیمانے پر کھل چکا ہے اور ’’پیڈ نیوز آئٹم‘‘ جیسے نام سے اسے شہرت بھی مل چکی ہے۔
جن دنوں میں آپ کا یہ خادم اخباری دنیا میں ملازم ہوا تھا تو وہ کمپیوٹر کا (آج جیسا عام) زمانہ نہیں تھا۔ میں بھی ایک معمولی سا کاتب تھا۔ کتابت ہر اخبار کے لیے ایک شانِ امتیاز کا درجہ رکھتی تھی۔ اسی سبب ان دنوں بڑے اخباری اداروں کا سالانہ کتابت کا خرچ بھی کافی رہتا تھا؛ جبکہ آج کے مقابلے ان کی تعدادِ اشاعت بھی پانچ یا دس ہزار سے تجاوز نہیں کرپاتی تھی۔ تصویروں کے لیے پازیٹیو میکنگ کے چارجز الگ ہوتے تھے۔ پیج (کاپی) پیسٹر کی تنخواہ بھی لازمی طور سے دینی پڑتی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کمپیوٹر اور ’’اِن پیج‘‘ جیسے اردو پبلشنگ پروگرام کی آمد سے پہلے اخباروں کو اضافی طور سے اخراجات بھی کافی کرنے پڑتے تھے۔ یہ اخراجات اس طرح نہ صرف کم ہوگئے بلکہ ’’گم ہوگئے‘‘ اور اردو اخبارات کی شکل و صورت میں بھی معاصرانہ تقاضے جھلکنے لگے۔ کانسیپٹ سافٹ ویئر Concept Software (دہلی، انڈیا) کے پروگرام اِن پیج نے جہاں ان کاموں کا قلع قمع کردیا ہے وہیں چند پاکستانی بددیانتوں نے (جنھیں زعم ہے کہ انھوں نے اردو کے لیے ’جہاد‘ انجام دیا ہے، یہ فتویٰ طلب بات ہے) ایک سافٹ ویئر کمپنی کا ’سافٹ ویئر لاک‘ توڑنے کے بعد ’اِن پیج‘ کو سب کو بانٹ دیا۔ اردو اخبارات کی شکل و صورت میں خوبیاں بڑھانے والے اس سافٹ ویئر کو ’’بالکل مفت‘‘ حاصل کرنے کی ہی بات نہیں کی جاتی بلکہ اس سافٹ ویئر کو استعمال کرکے اس سافٹ ویئر کو بنانے والی کمپنی کو بھی محسن کی جگہ مجرم، ڈاکو اور لٹیرا جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ کمال ہے کہ گاڑی آپ نے چرائی، سیرسپاٹا خود کر رہے ہیں اور چلاکر اس کے مالک کو ڈاکو کہتے ہیں۔ (چیلنج: اگر ممکن ہے تو ابھی ’اِن پیج‘ سے الگ ہوکر آپ کوئی پبلشنگ کر کے بتائیں)۔ اب تو اردو کے چند بڑے اور چھوٹے اخبارات ’’مسروقہ اِن پیج‘‘ کو دیدہ دلیری اور دھڑلے کے ساتھ استعمال کرنے میں کوئی عیب یا گناہ تصور نہیں کرتے۔ یہ بات اس لیے بھی ضمناً چلی آئی ہے کہ اردو اخبارات یا رسائل پر کتابت یا پیج میکنگ کا خرچ بھی صفر ہوچکا ہے۔ اسی طرح فوٹوگرافی (فوٹوجرنلزم) جیسے اہم ترین صحافتی سیکشن کو بھی اردو اخبارات نے چلتا کردیا ہے اور انٹرنیٹ یا ایجنسی سے دستیاب تصویروں سے ہی کام چلا کر اردو قارئین میں اپنا کالر ٹائٹ کر رہے ہیں!
یہ تو ہوئی ایک بات۔ اب آئیے اس جانب بھی دیکھیں کہ یہ اخبارات قارئین سے اخبارات کی قیمت بڑھا نے کے لیے بڑا جواز نیوزپرنٹ کو بناتے ہیں تو کس طرح اسی نیوزپرنٹ کے استعمال کو اپنے فائدے کے لیے اور قارئین کا نقصان کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ انھیں جب کبھی زیادہ اشتہارات ملتے ہیں تو یہ اسی نیوزپرنٹ پر گلے گلے تک بھر کر اشتہارات دیا کرتے ہیں۔ اور بچی ہوئی چند سطروں میں انتہائی بوسیدہ سی خبریں ڈال دی جاتی ہیں؛ لیکن انھیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جن قارئین کی جیب سے آپ نے نیوزپرنٹ کا پیسہ لیا ہے ان کے حصہ کا نیوزپرنٹ مع خبریں یا مشمولات انھیں صفحات کی تعداد بڑھا کر لوٹائیں۔
انگریزی اور دوسری زبان کے اخبارات میں ایک بالکل جدا معمول اور ماحول ہے۔ یہاں جیسے اشتہارات میں اضافہ ہوا ویسے ہی صفحات میں بھی اسی قیمت کے اندر اضافہ کردیتے ہیں۔ ان کی طباعت اور اشاعت کا معیار بھی ہمیشہ معاصرانہ ہمروی کا غماز ہوتا ہے۔یہ اخبارات اپنے قلمکاروں اور کالم نویسوں کی بھی بھرپور قدرافزائی کرتے ہیں۔ انھیں معاوضہ بھی ان کی عزتِ نفس یا پھر اخبار کے ہی مقام و وقار کا خیال کر کے دیا کرتے ہیں۔
ایک اور بات سے شاید اردو کے عام قارئین واقف نہ ہوں گے کہ یہ بڑے اخبارات اپنے کالم نویسوں یا مضمون نگاروں یا دوسرے کنٹریبیوٹرس contributors کو بھی کچھ پیسہ دینا اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ کوئی اخبار والا اگر اس کو روا بھی رکھتا ہے تو اتنی قلیل رقم دیتا ہے کہ وہ متعلقہ مضمون نگار کی اسٹیشنری یا دوسرے میڈیم کے استعمال کی رقم کو بھی نہیں پہنچ پاتی۔ اس طرح دیکھا جائے تو کالم نویس یا مضمون نگار بیچارہ اپنے خون کو روشنائی بنادیتا ہے اور اس سے اخبار کو سنوارنے کا جتن کرتا ہے مگر کسی معقول صلے کی تمنا کرنا ایک جرمِ نا گوار و ناسپاس ہے۔ جب سے انٹرنیٹ کی سہولت ہوگئی ہے تو ان اردو اخبارات کے مدیران کی اینٹھن بھی کچھ بڑھ گئی ہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب پاکستانی اخبارات و رسائل سے جوٹھن اٹھا اٹھا کر ہمارے حوالے کرتے ہیں لیکن خود اپنے (ہندوستانی) سماج میں قلمکار پیدا کرنا نہیں چاہتے ہیں ۔ اس لیے آپ دیکھیے کہ عملہ کی تنخواہ سے آگے اردو اخباری اداروں کا کوئی واضح اضافی خرچ نہیں ہے۔
اسی لیے اردو کے طلبا جب ہم جیسوں کے پاس کریئر سازی میں صحافت کے انتخاب کی بات کرتے ہیں تو ہم ان کو یہی مشورہ دیا کرتے ہیں کہ اگر تمھیں پیسہ کمانے نہیں بلکہ لٹانے سے دلچسپی ہو تو یہ تباہ کن شوق اپنانا اور اپنا ذریعۂ آمدنی کوئی اور اختیار کرنا۔
آج اردو کا ایک اخبار کسی بھی گھر سے ماہانہ ڈیڑھ سو روپے وصول کرتا ہے، یعنی سالانہ اٹھارہ سو روپے۔ اس مناسبت سے دیکھا جائے تو اردو میں شائع ہونے والی مفید کتابیں بھی اس سے کافی کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہیں جو ایک لمبی مدت تک ردّی نہیں ہوتیں نیز ردّی والا بھی اکثر انھیں خریدنے میں اخبارات کی مانند تامل نہیں کرتا.
اخباربینی ایک ایسی عادت ہے، چسکا ہے، جو ایک بار لگ گیا تو کسی فرد کو صبح آنکھ کھلتے ہی شدید طور سے اس کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ملے تو اس کا موڈ بالکل بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے کسی (مستحکم) اخبار کی تعدادِ اشاعت یومیہ کسی بھی انداز سے کم نہیں ہوا کرتی۔ اخباروں کی کوشش بھی ہمیشہ ایک نیا یعنی اضافی ٹارگٹ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے انھیں گھاٹے میں جانے کے لیے اخباری کاغذ کتنا بڑا رول اداکرتا ہے اسے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بعض ایسے اخبارات بھی اپنا دام بڑھانے لگتے ہیں جن کا نیوزپرنٹ (کاغذ) ہوٹلوں میں دئیے جانے والے ٹشوپیپر کے مقابلے میں بھی کم معیاری رہا کرتا ہے، انھیں ردّی والے بھی لینے میں ہمیشہ گھروالوں کا منہ تاک کر لیتے ہیں یا لینے سے انکار کردیتے ہیں۔
آئیے ذرا تجزیہ کریں کہ کیا واقعی اخبار کی قیمت ان ’’بڑے اخبار‘‘ کے اداروں کے بجٹ کو اتنا متاثر کرتی ہے کہ وہ اسے اپنے قارئین کی جیب سے نکالنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
آج کل اردو کے اخباروں کی قیمت چار روپے یا پانچ روپے یومیہ چل رہی ہے۔ یہ اخبارات تعداد میں بھی بیس ہزار یا اس سے زیادہ چھپ رہے ہیں۔ اگر اس (بظاہر غیرمتاثرکن) تعداد کے پیشِ نظر ہم حساب کریں تو یومیہ ایک سے دولاکھ روپے تک اخباری اداروں کو صرف اخبار کی فروخت سے حاصل ہوتے ہیں جس میں سے ڈسٹری بیوشن کی رقموں اور کمیشنوں کو منہا کیا بھی جائے تو تقریباً پون لاکھ روپے یومیہ یا بیس تا تیس لاکھ روپے ماہانہ بنتے ہیں۔ مدیران اور عملہ کی ایک اوسط تعداد پچاس بھی مان لی جائے (جو بہت زیادہ ہے) اور انکی ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار فی کس کے انتہائی زیادہ اوسط سے بھی نکالیں تو بارہ سے پندرہ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ یعنی صرف اخبار کی فروخت سے ادارے کو اتنا ضرور بچ رہتا ہے کہ وہ ’’کھا پی کر گھاٹے میں نہیں‘‘ جاسکتا۔ دوسری مدوں سے ہونے والی آمدنی کو ہم نے تو ابھی جوڑا بھی نہیں ہے۔ ان میں سب اہم اشتہارات کی آمدنی ہے۔ ان بڑے اخبارات کے اشتہارات کی شرح بھی ایسی بڑھ چکی ہے کہ عام طور سے اشتہارات دینے والے اب خوشی سے نہیں بلکہ اندیشوں کے ساتھ اشتہارات دیتے ہیں کہ کیا پتہ وصول بھی ہوگا یا ڈوب جائے گا۔ پھر بھی ماضی کے مقابلے انھیں (کاروباری اداروں کے) اشتہارات بھی بھرپور ملنے لگے ہیں۔
دوسری آمدنی سیاسی حضرات یا پارٹیوں سے کی گئی سیٹنگ کے نتیجہ میں یا مختلف ضمیموں کی اشاعت کی آڑ میں کی جانے والی آمدنی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جسے تحریر کرنا اب معیوب ہے۔ بلکہ یہ تو اب جرنلسٹک پروفیشن کا ایک ’’پارٹ‘‘ بن چکا ہے۔ خصوصاً سابقہ الیکشنوں میں یہ پول بہت بڑے پیمانے پر کھل چکا ہے اور ’’پیڈ نیوز آئٹم‘‘ جیسے نام سے اسے شہرت بھی مل چکی ہے۔
جن دنوں میں آپ کا یہ خادم اخباری دنیا میں ملازم ہوا تھا تو وہ کمپیوٹر کا (آج جیسا عام) زمانہ نہیں تھا۔ میں بھی ایک معمولی سا کاتب تھا۔ کتابت ہر اخبار کے لیے ایک شانِ امتیاز کا درجہ رکھتی تھی۔ اسی سبب ان دنوں بڑے اخباری اداروں کا سالانہ کتابت کا خرچ بھی کافی رہتا تھا؛ جبکہ آج کے مقابلے ان کی تعدادِ اشاعت بھی پانچ یا دس ہزار سے تجاوز نہیں کرپاتی تھی۔ تصویروں کے لیے پازیٹیو میکنگ کے چارجز الگ ہوتے تھے۔ پیج (کاپی) پیسٹر کی تنخواہ بھی لازمی طور سے دینی پڑتی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کمپیوٹر اور ’’اِن پیج‘‘ جیسے اردو پبلشنگ پروگرام کی آمد سے پہلے اخباروں کو اضافی طور سے اخراجات بھی کافی کرنے پڑتے تھے۔ یہ اخراجات اس طرح نہ صرف کم ہوگئے بلکہ ’’گم ہوگئے‘‘ اور اردو اخبارات کی شکل و صورت میں بھی معاصرانہ تقاضے جھلکنے لگے۔ کانسیپٹ سافٹ ویئر Concept Software (دہلی، انڈیا) کے پروگرام اِن پیج نے جہاں ان کاموں کا قلع قمع کردیا ہے وہیں چند پاکستانی بددیانتوں نے (جنھیں زعم ہے کہ انھوں نے اردو کے لیے ’جہاد‘ انجام دیا ہے، یہ فتویٰ طلب بات ہے) ایک سافٹ ویئر کمپنی کا ’سافٹ ویئر لاک‘ توڑنے کے بعد ’اِن پیج‘ کو سب کو بانٹ دیا۔ اردو اخبارات کی شکل و صورت میں خوبیاں بڑھانے والے اس سافٹ ویئر کو ’’بالکل مفت‘‘ حاصل کرنے کی ہی بات نہیں کی جاتی بلکہ اس سافٹ ویئر کو استعمال کرکے اس سافٹ ویئر کو بنانے والی کمپنی کو بھی محسن کی جگہ مجرم، ڈاکو اور لٹیرا جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ کمال ہے کہ گاڑی آپ نے چرائی، سیرسپاٹا خود کر رہے ہیں اور چلاکر اس کے مالک کو ڈاکو کہتے ہیں۔ (چیلنج: اگر ممکن ہے تو ابھی ’اِن پیج‘ سے الگ ہوکر آپ کوئی پبلشنگ کر کے بتائیں)۔ اب تو اردو کے چند بڑے اور چھوٹے اخبارات ’’مسروقہ اِن پیج‘‘ کو دیدہ دلیری اور دھڑلے کے ساتھ استعمال کرنے میں کوئی عیب یا گناہ تصور نہیں کرتے۔ یہ بات اس لیے بھی ضمناً چلی آئی ہے کہ اردو اخبارات یا رسائل پر کتابت یا پیج میکنگ کا خرچ بھی صفر ہوچکا ہے۔ اسی طرح فوٹوگرافی (فوٹوجرنلزم) جیسے اہم ترین صحافتی سیکشن کو بھی اردو اخبارات نے چلتا کردیا ہے اور انٹرنیٹ یا ایجنسی سے دستیاب تصویروں سے ہی کام چلا کر اردو قارئین میں اپنا کالر ٹائٹ کر رہے ہیں!
یہ تو ہوئی ایک بات۔ اب آئیے اس جانب بھی دیکھیں کہ یہ اخبارات قارئین سے اخبارات کی قیمت بڑھا نے کے لیے بڑا جواز نیوزپرنٹ کو بناتے ہیں تو کس طرح اسی نیوزپرنٹ کے استعمال کو اپنے فائدے کے لیے اور قارئین کا نقصان کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ انھیں جب کبھی زیادہ اشتہارات ملتے ہیں تو یہ اسی نیوزپرنٹ پر گلے گلے تک بھر کر اشتہارات دیا کرتے ہیں۔ اور بچی ہوئی چند سطروں میں انتہائی بوسیدہ سی خبریں ڈال دی جاتی ہیں؛ لیکن انھیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جن قارئین کی جیب سے آپ نے نیوزپرنٹ کا پیسہ لیا ہے ان کے حصہ کا نیوزپرنٹ مع خبریں یا مشمولات انھیں صفحات کی تعداد بڑھا کر لوٹائیں۔
انگریزی اور دوسری زبان کے اخبارات میں ایک بالکل جدا معمول اور ماحول ہے۔ یہاں جیسے اشتہارات میں اضافہ ہوا ویسے ہی صفحات میں بھی اسی قیمت کے اندر اضافہ کردیتے ہیں۔ ان کی طباعت اور اشاعت کا معیار بھی ہمیشہ معاصرانہ ہمروی کا غماز ہوتا ہے۔یہ اخبارات اپنے قلمکاروں اور کالم نویسوں کی بھی بھرپور قدرافزائی کرتے ہیں۔ انھیں معاوضہ بھی ان کی عزتِ نفس یا پھر اخبار کے ہی مقام و وقار کا خیال کر کے دیا کرتے ہیں۔
ایک اور بات سے شاید اردو کے عام قارئین واقف نہ ہوں گے کہ یہ بڑے اخبارات اپنے کالم نویسوں یا مضمون نگاروں یا دوسرے کنٹریبیوٹرس contributors کو بھی کچھ پیسہ دینا اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ کوئی اخبار والا اگر اس کو روا بھی رکھتا ہے تو اتنی قلیل رقم دیتا ہے کہ وہ متعلقہ مضمون نگار کی اسٹیشنری یا دوسرے میڈیم کے استعمال کی رقم کو بھی نہیں پہنچ پاتی۔ اس طرح دیکھا جائے تو کالم نویس یا مضمون نگار بیچارہ اپنے خون کو روشنائی بنادیتا ہے اور اس سے اخبار کو سنوارنے کا جتن کرتا ہے مگر کسی معقول صلے کی تمنا کرنا ایک جرمِ نا گوار و ناسپاس ہے۔ جب سے انٹرنیٹ کی سہولت ہوگئی ہے تو ان اردو اخبارات کے مدیران کی اینٹھن بھی کچھ بڑھ گئی ہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب پاکستانی اخبارات و رسائل سے جوٹھن اٹھا اٹھا کر ہمارے حوالے کرتے ہیں لیکن خود اپنے (ہندوستانی) سماج میں قلمکار پیدا کرنا نہیں چاہتے ہیں ۔ اس لیے آپ دیکھیے کہ عملہ کی تنخواہ سے آگے اردو اخباری اداروں کا کوئی واضح اضافی خرچ نہیں ہے۔
اسی لیے اردو کے طلبا جب ہم جیسوں کے پاس کریئر سازی میں صحافت کے انتخاب کی بات کرتے ہیں تو ہم ان کو یہی مشورہ دیا کرتے ہیں کہ اگر تمھیں پیسہ کمانے نہیں بلکہ لٹانے سے دلچسپی ہو تو یہ تباہ کن شوق اپنانا اور اپنا ذریعۂ آمدنی کوئی اور اختیار کرنا۔
آج اردو کا ایک اخبار کسی بھی گھر سے ماہانہ ڈیڑھ سو روپے وصول کرتا ہے، یعنی سالانہ اٹھارہ سو روپے۔ اس مناسبت سے دیکھا جائے تو اردو میں شائع ہونے والی مفید کتابیں بھی اس سے کافی کم قیمت میں دستیاب ہوتی ہیں جو ایک لمبی مدت تک ردّی نہیں ہوتیں نیز ردّی والا بھی اکثر انھیں خریدنے میں اخبارات کی مانند تامل نہیں کرتا.
3 comments:
بہت ہی کڑوا گھونٹ ہے
aap ne har baat sach likhi hai, 12 ya 16 safhe ka naheef aur laaghhar URDU akhbar chaey ki ek pyali khatm hone se pehle hi khatm ho jata hai. pichhle dinon ek siyasi khatddn ki shaan mein 2 safhe ke ishteharat URDU akhbarat mein chhape, in akhbarat ke malikan ne apni jeb to bhar li lekin gharib qari ko padhne ke liye kya diya? ham URDU akhbarat ki tousey-e-isha'at ke liye koshaan rehte hain lekin ......? bas ek baat aur, JAAGO QAARI JAAGO
اس وقت حامد صاحب کا جملہ ’’جاگو قاری جاگو’’ کافی ہے
Post a Comment