Ban On Burqa Is Ban On Modesty |
ہم اپنا مضمون لکھنے سے قبل سوچتے رہے کہ کسی جذباتی مسلمان کے انداز میں لکھیں اور برقع Burqa کے مخالفین کو اسلام کا مخالف اور شریعت کا مخالف بتائیں، ان کی خوب خوب مذمت کریں جو ہمارا آج کل کا شیوہ ہے، لیکن دیکھا کہ اس طرح زد میں ہمارے ہی بہت سے مسلمان بھائی اور بہنیں آتی ہیں؛ پھر سوچا کہ ایک موڈریٹ یعنی اعتدال پسند کے انداز میں لکھیں کہ بھائی جنھیں برقع اچھا لگتا ہے انھیں پہننے دو اور جنھیں پسند نہیں ہے ان پر اپنی پسند مت تھوپو ۔ بہتر خیال تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے ہمیں اندیشہ ہوا کہ ہم ایک اسلامی حکم کی اہمیت کو کم کرنے کا گناہ کریں گے؛ پھر سوچا اس موضوع کو چھوا ہی نہ جائے۔بہت سے دوسرے معاملات ہیں لکھنے پڑھنے کے۔ مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنا ضمیر کچوکے لگانے لگا! تو صاحب ہم نے بھی ارادہ کرکے کہا کہ چل میرے خامہ بسم اﷲ، چند سطریں ملّی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے لکھ ہی جائیں۔
Law Breaker or Criminal? How's your police behaving with a WOMAN Mr. Nicholas Sarkozy? Don't you have the lady cops to equalise the gender difference |
بے پردگی کی ہو نہ یہ درپردہ اِک بِنا
جن کو یہ ڈر ہے اُن کی تو جانوں پہ آ بنی
لیکن نگاہِ نبض شناسانِ وقت میں
امراضِ قوم کے لیے عمدہ دوا بنی
سرکوزی کسی روز ممبئی کے مدنپورہ یا بھنڈی بازار اور آس پاس کے علاقوں میں آگھومیں تو انھیں پتہ چلے گا کہ فرانس کی ’’مظلومات‘‘ سے کئی گنا مظلومات ہر گلی کوچے میں پھر رہی ہیں اور خوش و خرم ہیں۔ فرانس کی بھی جن خواتین کو یکساں حقوق دلانے کی فکر میں سرکوزی کا وزن کچھ متاثر ہوا ہے وہ اس پابندی پر سرکوزی حکومت سے ناراض ہو گئی ہیں اور پوری دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے مسٹر سرکوزی!Modernity v/s Modesty It's a matter of choice |
بات نکل آئی ہے تو عرض کردیں کہ ہمارے یہاں ان دونوں یعنی برقع کو اختیار کرنے والیوں اور برقع سے فرار چاہنے والیوں کے درمیان ایک ایسا گروہ بھی ہے جس نے برقع کو اس انداز میں اختیار کیا ہے کہ وہ اوّل الذکر دونوں کے لیے ہی نہیں بلکہ جملہ مسلمانوں کے لیے بھی شرمندگی کا سبب بن گئی ہیں۔ اس بات پر کئی اردو صحافیوں نے تواتر کے ساتھ گاہے گاہے لکھا بھی ہے۔ مگر افسوس کہ ان کے نسخوں کا کسی نے کبھی کوئی نوٹس بھی نہیں لیا۔ تازہ ترین اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ ممبئی کے مسلم شناخت رکھنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جو لڑکیاں پڑھتی ہیں ان میں بعض برقع پوش ہونے کے ساتھ پڑھائی کے علاوہ ہر قسم کی ’’کالجیانہ زندگی‘‘ جی رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر (فرینڈز) کئی معاملات میں ایک دوسرے کی معاون بھی ہوتی ہیں اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے لڑکوں کے ساتھ کوئی بھی وقتی یا طویل مدتی عہد و پیمان کرنے میں بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ ملوّث ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کوئی نئی بھی نہیں رہ گئی ہے اس لیے اس پر چونکنے سے زیادہ اس کے اصل علاج پر بھی ہمیں سنجیدہ ہو جانے کا وقت ہے۔ بقول شبیر احمد راہی:
مجھ سے پوچھو تو سنبھلنے کا یہی اِک وقت ہے
مریم و شمشاد نے پھینکی نہیں چادر ابھی
برقع کی بات پر ہم سب ہمیشہ بیحد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ حمایت میں بھی اور مخالفت میں بھی۔ مخالفت برائے مخالفت ہوتی ہے تو کسی کو بھی برا لگتا ہے... خود مخالفت کرنے والے اپنے خلاف کچھ سننے کے لیے کبھی آمادہ ملتے ہیں کیا؟... ہم مخالفین پر دانت پیستے ہیں، ان کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ غیرواجبی نہیں ہے۔ فرانس کے سرکوزی کی بھی ہم اپنی پوری قوت سے چلا کر مذمت کرتے ہیں... لیکن جو لاتعداد سرکوزی ہمارے درمیان ہیں ان کا کریں۔ ان کے ساتھ سرپھوڑی کون کرے۔ ان کی بھی اپنی تاویلات ہیں، طرح طرح کے سوالات ہیں، اشکالات ہیں... بہرحال ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی بھی فرانسیسی سرکوزی کی مانند مذمت کریں، احتجاج کریں، کیونکہ:وہ بدنظر ہے وہ بدخواہ و بدنہاد بھی ہے
جسے بہن کے بدن پر رِدا پسند نہیں
٭٭
3 comments:
aap ke is mazmoon ki aalami satah par tashheer honi chahiye
السلام علیکم و جزاک اللہ
آپ کی راۓ کا احترام ہے. بات صرف یہی ہے کہ شاید ہم سب کے دل میں اتر جاۓ.
Burqe ke baare mein ek baat hum yeh bataana chahenge ke kuch ghair muslim ladkiyan bhi ghalat kaamon ke liye ise istemaal karti hain, hum ne dekha hai Kurla Station par ghair muslim college ki ladkiyon ko burqa pahante hue aur phir station ke baahr aakar apni matlooba bus pakadte huye.
Post a Comment